تعلیم کی ارتقاء میں کتاب کی اہمیت

   

حافظ محمد شعیب
یہ دستور ہے کہ اس کائنات کے وجود و عدم میں پھولے سمانے والی ہرچیز ایک وقت خاص کے ساحل پر آکر فنائیت کی سند حاصل کرلیتی ہے۔ جب تک وہ چیز متحرک اور قابل انتقاع رہے اس کی ترقی کا تانتا طول پکڑتا جاتا ہے ۔ شئی کی بقا خود اس کی ترقی و ازدیاد کا باعث ہوتی ہے۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی امر سے ہو ۔ زیر قلم موضوع تعلیم اور کتاب سے متعلق ہونے کے بموجب اس عنوان پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔
تعلیم خواہ مذہبی ہو یا سائنسی یا اقتصادی اس کی صحت و بقاء و ارتقاء کے پیچھے جو اُمور کارگر ہوتے ہیں ان سب کا دارومدار کتاب پر ہوتا ہے۔ کتاب کے بغیر کوئی بھی علمی مسئلہ بے اصل اور فرضی مانا جاتا ہے ۔
علم کی شمع روشن کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں استاذ و شاگرد کا رشتہ مہر منیر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مگر دونوں کا مرکز علم مصدر علم اور مرجع علم کتاب ہوتی ہے ۔ یہی کتاب دسترخوان علم کے خوشہ چیں کو زیور علم سے آراستہ کرتی ہے ۔ پھر سلائی سے سلائی سلگتی ہے ۔ چراغ سے چراغ روشن ہوتاہے پھر اس سلسلہ درس و تدریس سے ایک تعلیم یافتہ طبقہ جنم لیتاہے ۔ان کے ذریعہ مدارس ، کلیات اور جامعات کا قیام عمل میں آتا ہے ۔ یوں ہی بڑھتے بڑھتے کاروان علم کا دائرہ روز افزوں وسعت اختیار کرلیتا ہے ۔رفتہ رفتہ جہالت کی سیاہ تاریکی چھٹنے لگتی ہے ۔ معاشرہ سے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، منفی اثرات دم توڑنے لگتے ہیں ۔ سماج کو نئی فکر ملتی ہے ، ترقیاتی اُمور سے روشناسی حاصل ہوتی ہے ، غربت اور فاقہ کشی کے دن دور ہونے لگتے ہیں ، خوش گواری اور آسودہ حالی کے موسم تبریک کے نغمیں اور خیرمقدم کے ترانے گانے لگتے ہیں ۔ یوں ہی دیکھتے ہی دیکھتے وہ معاشرہ دنیا کے سامنے علم دوست اور ترقی پسند ہونے کی بے شمار تہنیتیں وصول کرلیتا ہے اور کامیابی کی راہ میں اپنی مثال قائم کرلیتا ہے ۔یہ سب کس کا کرشمہ ہے ، کس کی دین ہے کہ ایک علم و فن سے اجنبی طبقہ چند سال میں دنیا کے ساتھ اعلیٰ صف میں کھڑے ہونے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ آخر اس کو یہ عزت کس نے بخشی ۔ یوں جلالت شان والا کس نے بنایا ؟ اہل انصاف یہاں اس بات کی گواہی دینے میں تامل نہیں کریں گے ، یہ عنایت ہے تو اس مکتب کی عنایت ہے جس نے اس کو پڑھنے کیلئے کتابیں فراہم کیا ۔ یہ کرامت ہے تو اس کتاب کی کرامت ہے جس نے خود پن گھٹ بن کر اس تشنگان علم کو آب زر سے سیراب کیا ۔
کتاب کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے لوح پر کنندہ نگارشات میں کبھی خیانت نہیں کرتی جو چیز سپرد قرطاس کردی جاتی ہے وہ نقش فی الحجر کی طرح ثبت ہوکر رہ جاتی ہے ۔ اس لئے بندوں کی رشد و ہدایت ، تعلیم و تربیت اور حقیقی فلاح و کامرانی کیلئے ہادیٔ برحق کی نگاہِ انتخاب بھی کتاب ہی پر پڑتی ہے ۔چنانچہ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ عہد صدیق اکبرؓ میں اسود عنسی اور مسلمہ کذاب کے فتنوں کا قلع قمع کرنے کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کو یہ اضطراب کی فکر دل گیر ہوئی کہ حوادث زمانہ کے مرور سے کہیں قرآن پاک کی چیدہ چیدہ آیتیں اور غیرنظم سورتیں تلف نہ ہوجائے ۔ ’’ آپ نے یہ سخت ضرورت محسوس فرمائی کہ قرآن کریم کو کتاب واحد میں جمع کردیا جائے ‘‘ ۔ چنانچہ آپؓ نے حضرت سیدنا ابوبکرؓ کی خدمت میں یہ مشورہ پیش فرمایا ۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے اولاً انکار فرمایا ، کیونک خود رسالت مآب ﷺ نے کتابت کا یہ طریقہ اختیار نہیں فرمایا تھا لیکن بعد غور و خوض کے آپؓ نے بھی اس مسئلہ سے اتفاق فرمالیا ۔ بعد ازاں محنت شاقہ ، سعیٰ پیہم اور جہد مسلسل کے بعد قرآن پاک مصحف کی شکل میں معرض وجود میں آیا ۔
آج سارا عالم اسلام حضرت صدیق اکبرؓ کی قیادت حضرت فاروق اعظمؓ کی اس نکتہ رسی اور صحابۂ کرامؓ کی ان شبانہ رو ز کاوشوں کا مرہون منت ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی حفاظت کیلئے کتابت ہی کے طریقہ کو اختیار کر کے رہتی دنیا تک قرآن پاک میں تحریف کی گنجائش کا سدباب کردیا ۔
ہے قولِ محمد قولِ خدا فرمان نہ بدلا جائے گا
بدلے گا زمانہ لاکھ مگر قرآن نہ بدلا جائے گا
الغرض کتاب کی اہمیت و خصوصیت نہایت ہی باعظمت ہے ۔ کتاب ہر دور میں چراغ بن کر گمراہ قوموں اور بے راہ رووں کو راہِ ہدایت کا مسافر بنائی ۔ ترقی اور فلاح و بہبودی کے راستے ہموار کی اور خصوصا علم کی حفاظت و بہتری کیلئے وہ کارہائے فضیلت انجام دی ہے کہ کوئی دوسری چیز تا صبح قیامت اس کی جگہ نہیں لے سکتی ۔