تقاریب نکاح اورویڈیوگرافی

   

مسلم معاشرہ میںبہت سی وہ برائیاں جن کوبراسمجھاجاتاتھا اس کے مرتکب بھی نادم وشرمسار رہتے تھے،اب نئی قدروں نے ان کے برے ہونے کے تصورکوموہوم کردیا ہے۔کبھی ان کے گناہ ہونے کا جواحساس تھاوہ مفقودہوچکاہے،ان برائیوں اورخرابیوں کی ایک بڑ ی فہرست ہے اس وقت موضوع سخن تقاریب نکاح کی فوٹوگرافی اورویڈیوگرافی ہے۔اب اس کا چلن اس قدرعام ہوچکاہے کہ شایدوبایدہی کوئی نکاح کی تقریب ہوگی جواس کے بغیرتکمیل پاتی ہو،ورنہ اکثرتقاریب اس برائی کی لپیٹ میں ہیں،فوٹوگرافی اورویڈیوگرافی کے جوازوعدم وجوازپربھی کوئی بحث اس وقت یہاں مقصودنہیں ہے بلکہ مقصودیہ ہے کہ اس سے ملت کی بیٹیوں ،بہنوں اورمائوں کی حرمت جوپامال ہورہی ہے اوراس کی وجہ حیاء وحجاب کے اسلامی تقاضے مجروح ہورہے ہیںاس کا تدارک ہو۔اسلام نے خواتین کے ستراورحجاب دونوں کے احکام مفصلا بیان کئے ہیں ،سوائے چہرے،پہنچوں سے نیچے دونوں ہاتھ اورٹخنوں سے نیچے دونوں پیروں کے تمام اعضاء سترمیں داخل ہیں، اس اہتمام کے بغیرنمازادانہیں ہوتی،وہ رشتہ دارجومحارم کہلاتے ہیں یعنی جن سے ابدی طورپرنکاح کی حرمت ہے ان کا سامنا ہوتب بھی بڑی احتیاط کی ضرورت ہے تاہم ان کے آگے اہتمام سترمیں کوئی کمی بیشی ہوجائے توشرعاً کوئی داروگیرنہیں ہے۔ لیکن ایسے رشتہ دارجومحارم نہیں کہلاتے اوروہ جواجانب ہیں یعنی جن سے کسی طرح کا کوئی رشتہ نہیں ہے ان سب سے حجاب کرناضروری ہے۔سورئہ احزاب آیت ۵۹ میںحجاب کا حکم دیا گیا ہے اورحجاب کیلئے جلباب یعنی بڑی چادراستعمال کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جس سے چہرہ کا اکثرحصہ ودیگر سارے اعضاء ڈھک جائیں۔ایک موقع پرہم سب کی مائیں ام سلمہ ومیمونہ رضی اللہ عنہمارسول اکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرتھیں اس دوران ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آگئے اوریہ واقعہ حجاب کے احکام نازل ہونے کے بعدکا ہے،رسول اللہﷺنے فرمایا کیا تم نے ان سے حجاب کیا؟ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ!وہ تونابینا ہیں،ہمیں نہ دیکھ سکتے ہیں نہ پہچان سکتے ہیں،یہ سن کرآپﷺنے فرمایاکیا تم دونوں بینائی نہیں رکھتیں اور کیا ان کودیکھ نہیں رہی ہیں ‘‘ (ترمذی:۲۷۷۸)۔ بے ستری اوربے حجابی سے بے حیائی کا راستہ کھلتاہے اس لئے اسلا م نے اس پرسخت قدغن لگائی ہے۔ارشادباری ہے ’’اپنے گھروں میں وقارکے ساتھ رہواورقدیم دورجاہلیت کی طرح اپنے بنائو سنگھار کا اظہارنہ کرو‘‘(الاحزاب:۳۳)اول توخواتین کوبلاضرورت گھرسے باہرنہیں نکلنا چاہئے ،کوئی خاص مجبوری ہوتوپھرشرعی حدودوقیود کے ساتھ نکلنے کی اجازت ہے، بے پردہ یا زیبائش وآرائش کے ساتھ نکلنا یاان اعضاء کا کھلارکھنا جن کاظاہرکرنا شرعاً جائزنہیں ہے جیسے چہرہ،سر،بازو،سینہ وغیرہ قرآن پاک کی روسے ’’تبرج‘‘کہلاتاہے جودورجاہلیت کی پہچان ہے،اسلام نے اسی پرروک لگائی ہے ، اس کو خواہ کتناہی خوبصورت نام دیدیا جائے اسلام سے اس کا کوئی علاقہ نہیں۔اسلامی اقدارکی قدروقیمت سے ناواقف اس(تبرج) کوجدیددورکے تقاضوں سے تعبیرکرتے ہیںاوراس کی مخالفت کرنے والوں کوقدامت پسنداورعصری تقاضوں سے نا بلد ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔

حدیث پاک میں واردہے ’’عورت سراپا پردہ ہے یعنی چھپائے رکھنے کی چیزہے، جب وہ گھرسے باہرنکلتی ہے توشیطان تاک جھانک شروع کردیتا ہے‘‘ (ترمذی:۱۱۷۳)یعنی کھلے عام خواتین کا بے پردہ باہر نکلنابڑے فتنوں کا باعث بنتاہے،مردوں اورعورتوں کوفتنے میں مبتلاء کرنے کا شیطان کوموقع مل جاتا ہے،مغربی تہذیب کی اندھی تقلیدمیں اسلام کے فطری احکام ستروحجاب کی خلاف ورزی کے برے نتائج کھلے عام مشاہدہ میں آرہے ہیں،غفلت کی انتہاء یہ ہے کہ اس کے باوجودمسلم سماج ہی نہیں بلکہ انسانی سماج اصلاح کیلئے تیارنہیں ہے۔افسوس کہ مسلم سماج جوکبھی حیاء وحجاب کے اسلامی احکام کی تعمیل کا آئینہ دارتھااب وہ یکلخت بے حیائی وبے حجابی کی عملی تصویربناہواہے۔شادی بیاہ کی تقاریب میں جبکہ خواتین بہت زیادہ بنائوسنگھار کے ساتھ شریک ہوتی ہیں ان میں سے اکثرکا لباس بھی شرعی سترکے تقاضوں کی تکمیل سے قاصر رہتاہے اوردلہن کا کیا پوچھنا اس کوبھی اکثر غیرشرعی لباس میں ملبوس اور جیسے کچھ زیبائش وآرائش سے سجاسنوارکرلایا جاتاہے اس سے دیکھنے والوں کویہ محسوس ہوتاہے کہ کوئی پرستان کی پری ہے جوآسمان سے اترکرزمین پرآگئی ہے۔ظاہرہے بنائو سنگھار عورت کا فطری تقاضہ ہے اسلام اس سے منع نہیں کرتا لیکن بنائو سنگھارایسا ہوجودیکھنے میں اچھالگے ،اس میں اتنا زیادہ مبالغہ نہ ہوکہ اصل رنگ وروپ کی جگہ غیرحقیقی رنگ وروپ نے لے لیا ہوجس سے دیکھنے والوں کودھوکہ ہو۔بنائوسنگھارکے اسلامی حدودوقیودکیا ہیں اوریہ کس کیلئے کیا جاسکتاہے اس کے احکام بہت واضح ہیں،شوہرکیلئے سجنے سنورنے کی اسلام ترغیب دیتاہے،زیبائش وآرائش محارم پربھی ظاہرہوجائے توشرعا کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اسی زیبائش وآرائش کا غیرمحارم رشتہ دار و اجنبی مردوں پر اظہارہوتواس کی حرمت میں کوئی دورائے نہیں ہے ،اس لئے تقاریب کے موقع پرخواتین کے گوشے میں بے روک ٹوک مردوں کا آناجاناشرعاً جائزنہیں ہے۔خواتین کے دسترخوان پراشیاء خوردونوش کے نظم وانتظام میں مردویٹرس کی خدمات حاصل کرنا بھی خلاف شرع ہے،اس پرضرورروک لگنی چاہئے،اس کے علاوہ بہت زیادہ خرابی جس راہ سے آرہی ہے وہ ہے فوٹوگرافی اورویڈیوگرافی ۔کس قدرافسوس کی بات ہے کہ خواتین کے گوشے میں مردفوٹوگرافرس اورویڈیوگرافرس بے دھڑک آگھستے ہیں ،بلا خوف وجھجھک خواتین کی فوٹوگرافی اورویڈیوگرافی میں مصروف رہتے ہیں،خاص طورپران کی توجہ ایسی خواتین پرہوتی ہے جوبہت زیادہ زیبائش وآرائش ، بے ستری وبے حجابی کا پیکرہوتی ہیں،ان سے بھی زیادہ دلہن پران کی زیادہ توجہ مرکوز ہوتی ہے ،مزیدگناہ بالائے گناہ یہ ہے کہ ان کے سراپا کے عکس کوکیمرے اورویڈیو میں قیدکرتے ہوئے وہ(ویڈیوگرافرس وغیرہ) خواتین کونازواداکے ساتھ متوجہ ہونے کی دعوت دیتے رہتے ہیں اورایسے فقرے زبان سے نکالتے ہیں جوشرم وحیاء کے سخت منافی ہوتے ہیں۔

حدیث پاک میں واردہے ’’حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے ‘‘(بخاری:۹ )حیاء کا مفہوم بڑاوسیع ہے جوانسانی زندگی کے سارے شعبوں کومحیط ہے،ایسے اموربھی حیاء میں شامل ہیں جوخاص کرخواتین کے احکام ستروحجاب سے متعلق ہیں۔عفت وعصمت کی حفاظت کیلئے اللہ سبحانہ نے حیاء کا عنصرخواتین میں زیادہ رکھا ہے،غیرت بھی عمومی طورپرمردوعورت دونوں میں رکھی گئی ہے ،وہ حقوق انسانی جو شریعت نے مقررکی ہیں ان میں خیانت یا احکام شرع کی خلاف ورزی پر انسانی طبیعت میں جھنجھلاہٹ وناگواری کا پیداہوجانا غیرت کہلاتا ہے، اسی مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مرداپنی بیوی اوراپنی محرم عورتوں کے بارے میں غیرت مندہو،ایک واقعہ کے ضمن میں جواسی قبیل کا ہے حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے اپنی غیرت کا مظاہرہ کیا ،بعضوں کے اس پراظہارتعجب پرآپﷺنے فرمایا کیا تم سعدکی غیرت پرتعجب کرتے ہو یقینا میں ان سے زیادہ غیرت مندہوں اوراللہ سبحانہ مجھ سے زیادہ غیرت مندہے۔امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہروہ قوم جن کے مردوںمیں غیرت ہوگی ان کی خواتین محفوظ رہیں گی (احیاء علوم الدین:۳؍۱۶۸)حدیث پاک کی روسے ایسے افرادجواپنی بیویوں اوراپنی محرمات کے بارے میں غیرت سے محروم ہیں وہ دیوث (بے غیرت وبے حمیت) کہلاتے ہیں، روزحشراللہ سبحانہ وتعالی ان کی طرف نظررحمت نہیں فرمائے گا(مسلم:۲؍۱۳۶ )غیرت وحمیت کی وجہ ایسی خوداری پیداہوتی ہے جوبیوی وشوہر کے حقوق شریعت نے ایک دوسرے کیلئے رکھے ہیں اس میں کسی دوسرے کی شرکت ہرگزگوارہ نہیں ہوتی،حیاء ہی کی طرح غیرت کے معنی بھی وسیع ہیں جومردوعورت دونوں کوشامل ہے جو مردوں کی طرح عورتوں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ انسانوںکے مزاج وطبیعت میں ودیعت کردی گئی ہے،اسلامی احکام سے روگردانی کرکے اس فطری امرکومسخ نہ کرلیا گیا ہوتوہراس موقع پراپنی ناگواری کا اظہارکئے بغیرنہیں رہتی، جب غیرمردان کی محارم خواتین کا نظارہ کررہے ہوںیا خلاف غیرت وحیاء کوئی بات چیت یاکوئی عمل کے مرتکب ہوں۔نکاح چونکہ اللہ سبحانہ کی مرضی ومنشاء کی تعمیل اورسنت رسول ﷺکی تکمیل ہے اس لئے اس موقع پرعاقدین اورمحفل نکاح میں موجودتمام مردوخواتین پراللہ سبحانہ کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں ،ویڈیوگرافی وفوٹوگرافی اوردیگرغیرشرعی رسومات اورخرافات کوتقریب نکاح میں شامل کرکے ہم اللہ سبحانہ کی رحمتوں سے محروم ہورہے ہیں۔الامان والحفیظ