تقویٰ گناہوں سے کیسے بچاتا ہے

   

ہر ناجائز اور مشتبہ کام سے اپنے آپ کو بچانا تقویٰ کہلاتا ہے۔ قرآن میں ایسی کتنی مثالیں ہیں کہ جہاں کسی کے نفس کو بھڑکایا گیا مگر تقویٰ کی وجہ سے وہ اپنے نفس کو تھام کر اللہ کی نظر میں کامیاب ہوگئے۔ لہٰذا تقویٰ پیدا ہونے سے انسان کو اپنے نفس پر قابو نصیب ہوجاتا ہے۔ دراصل انسان گناہ کرتا ہے حسد کی وجہ سے ،حرص کی وجہ سے ، شہوت کی وجہ سے اور غصہ کی وجہ سے۔ قرآن مجید پر نظر ڈالے کہ اہل تقویٰ نے کیسی کیسی صورت میں اپنے آپ کو گناہوں سے بچایا۔آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ہابیل اور قابیل۔ قابیل کی بیوی خوبصورت تھی۔ قابیل چاہتا تھا کہ وہ اس کے نکاح میں آئے اور جب نہ آئی تو اس کو بھائی سے حسد ہوا اور اس نے کہا کہ میں تمہیں قتل کردوں گا۔ ہابیل نے جواب دیا کہ تم مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ گے تو میں اپنا ہاتھ تم پر نہیں اُٹھاؤں گا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ غصہ کے وقت بھی تقویٰ نے ان کو ایسی بات کرنے سے روک دیا جو اللہ کو ناپسند ہو۔ تو غصہ میں بھی متقی بندہ اپنے آپ پر قابو پا لیتا ہے۔گناہ شہوت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مثلاً زلیخا علیہا السلام وقت کی ملکہ حسن و جمال کی پیکر اور خلوت میں تالے لگا کر یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف بلاتی ہے مگر یوسف علیہ السلام کے دل میں تقویٰ تھا۔ جواب دیتے ہیں میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ، تو تقویٰ ایسی چیز ہے کہ غصہ ہو شہوت ہو یا کوئی بھی صورتحال ہو انسان قابو سے باہر نہیں ہوتا۔ عام طور پر لوگ حرص کی وجہ سے بھی گناہوں میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔ مال کو دیکھ کر بے قابو ہوجاتے ہیں۔ قارون کی دولت کو لوگ دیکھتے تو کہتے ہمارے پاس بھی اتنا ہوتا جتنا قارون کو ملا ہے۔ وہ بڑے مزے میں ہے اور جو تقویٰ والے تھے وہ اس چمک دمک سے متاثر نہیں ہوتے ۔ اللہ کے پاس جو اجر ہے وہ اس مال و دولت سے زیادہ بہتر ہے۔ (القرآن)معلوم ہوا کہ تقویٰ جب دل میں ہوتا ہے توشہوت کی بناء پر نہ گناہ کرتاہے اور نہ حرص کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے لہٰذا ہر طرح کے گناہ سے بچنا ا س کیلئے آسان ہوجاتا ہے۔