تلنگانہ میں اقلیتی اسکیمات

   

ملک کی سب سے نئی ریاست تلنگانہ میں اقلیتوں کے تعلق سے حکومت بلند بانگ دعوے کرتی ہے ۔ تشکیل تلنگانہ کیلئے جو جدوجہد کی گئی تھی اس میں بھی مسلمانوں کو سبز باغ دکھائے گئے تھے ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے مخالفت کے باوجود تلنگانہ کے سارے مسلمانوں نے تلنگانہ جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ تلنگانہ تحریک کی اہمیت اور علیحدہ ریاست کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جو کچھ مسلمانوں سے ہوسکتا تھا انہوں نے کیا ۔ تحریک تلنگانہ کے دوران ٹی آر ایس کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا اعتراف کیا گیا تھا اور یہ دعوی کیا گیا تھا کہ یہ ناانصافیاں آندھرائی حکمرانوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اگر علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آتی ہے تو مسلمانوں کو ان کا حق دیا جائیگا ۔ ٹی آر ایس سربراہ کی حیثیت سے چندر شیکھر راؤ نے ابتدائی چند مہینوں ہی میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ آٹھ سال گذر چکے ہیں اس وعدہ کا کہیں تذکرہ تک نہیں کیا جاتا ۔ 12 فیصد تحفظات تو خیر قانونی کشاکش کا شکارہوسکتے ہیں اور خود حکومت کی نیت بھی مشکوک ہے لیکن حکومت کے ہاتھ میں اقلیتوں کیلئے بجٹ فراہم کرنا ہے ۔ حکومت مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے 12 فیصد بجٹ فراہم کرسکتی ہے ۔ اس معاملہ میں نہ کوئی رکاوٹ ہے اور نہ کسی کی مخالفت کوئی معنی رکھتی ہے ۔ نہ کوئی اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتا ہے ۔ یہ صرف حکومت اور چیف منسٹر کی نیت پر مشتمل ہے اور تلنگانہ میں کوئی طاقت انہیں اس کام سے روکنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو صرف ایک تا دو ہزار کروڑ کا بجٹ فراہم کرکے احسان جتایا جاتا ہے اور ان کی اسکیمات کو محض کاغذ تک محدود کرتے ہوئے وقت ٹالا جاتا ہے ۔ کوئی ایک بھی اسکیم فی الحال تلنگانہ میں ایسی نہیں ہے جو مسلمانوں کیلئے شروع کی گئی ہو اور اسے کسی رکاوٹ کے بغیر فنڈز جاری کئے جا رہے ہوں۔ چاہے شادی مبارک اسکیم ہو یا پھر چیف منسٹر اوورسیز اسکالرشپ اسکیم ہو ۔ مسلم نوجوانوں کو روزگار سے جوڑنے کی اسکیم یا کوئی اور اسکیم سب ٹھپ ہیں۔
بیروزگار مسلم نوجوانوں کو ڈرائیونگ کی تربیت دے کر انہیں کار قرض پر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ یہ صرف علامتی کام رہا ۔ سینکڑوں نوجوانوں کو اس سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اسی طرح اوور سیز اسکالرشپ اسکیم کی رقومات جاری کرنے سے عہدیدار عمدا تغافل کرتے ہیں ۔ رقومات جاری کرنے کی کوشش کی بجائے اس میں رکاوٹ پیدا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ شادی مبارک اسکیم کے فنڈز جاری کرنے ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ رہا ہے وہ بھی درمیانی آدمیوں کو رشوت دینے کے بعد۔ اردو اکیڈیمی کے کوئی پروگرامس چل نہیں رہے ہیں۔ اقلیتی مالیتی کارپوریشن کا ادارہ صرف اپنے دفتر تک محدود ہے ۔ وقف بورڈ کو چونکہ اس کی اپنی آمدنی ہے اس لئے اس کا کام کاج برقرار ہے ۔ حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد اور شاہی مسجد باغ عامہ کے ملازمین کو تنخواہیں تک کئی کئی ماہ جاری نہیں کی جاتیں۔ انہیں اب آوٹ سورسنگ کے زمرہ میں شامل کردیا گیا ہے ۔ آئمہ اور موذنین کیلئے اعزازیہ کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن وہ بھی کئی کئی ماہ تک جاری نہیں کیا جاتا ۔ چند کروڑ روپئے کی اجرائی میں عہدیدار دلچسپی نہیں لیتے ۔ ایک محکمہ دوسرے محکمہ پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے خود کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔ حکومت کے ذمہ داران عوام کے درمیان پہونچ کر سب کچھ ٹھیک ہے کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت اور چیف منسٹر کی نام نہاد مسلم دوستی کی دہائی دینے سے تھکتے نہیں ہیں لیکن بنیادی مسائل پر وہ بھی خاموش ہوجاتے ہیں۔
اقلیتی محکمہ جات کے عہدیدار کام کرنے کی بجائے بہانے تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اقلیتوں کی اسکیمات پر صد فیصد عمل آوری محض ایک خواب بن کر رکھ دیا گیا ہے ۔ جو معمولی سا بجٹ اقلیتوں کیلئے جاری کیا جاتا ہے اس میں بھی تقریبا نصف بجٹ عہدیداروں کی لاپرواہی اور تغافل کی وجہ سے ختم سال تک واپس کردیا جاتا ہے ۔ بجٹ کا بڑا حصہ صرف ملازمین اور عہدیداروں کی تنخواہوں پر خرچ کرکے حکومت بری الذمہ ہوجاتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور عہدیدار خودا پنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اقلیتوں سے ہمدردی کے اپنے دعووں کو درست ثابت کرنے عملی اقدامات کا آغاز کیا جائے ۔