تلنگانہ میں انتخابی تیاریاں

   

مانا کہ سازگار چمن کی فضا نہیں
لیکن فضا بدلنے کا کیا حوصلہ نہیں
ملک کی سب سے نئی ریاست تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کی تیاریاں شرو ع ہوگئی ہیں۔ جہاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے طور پر تیاری اور در پردہ سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں وہیں الیکشن کمیشن بھی ریاست میں انتخابات کی تیاریوں کا جائزہ لینے کیلئے مصروف ہوچکا ہے ۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا سے عہدیداروں کی ایک ٹیم نے ریاست کا دورہ کیا ہے اور ریاستی عہدیداروں سے ملاقات کرتے ہوئے انتخابی تیاریوں پر غور و خوض کیا ہے ۔ حالانکہ ریاست میں ابھی انتخابات کیلئے تقریبا 8 ماہ کا وقت باقی ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ کمیشن کی جانب سے ماہ جون کے بعد کسی بھی وقت انتخابات کیلئے اعلامیہ اور شیڈول جاری کیا جاسکتا ہے ۔ جس طرح سے کمیشن کی جانب سے تیاریوں کا آغاز کیا گیا ہے ان کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ جون کے بعد انتخابات کا اعلامیہ جاری ہوسکتا ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس کا اندازہ ہوچکا ہے اس لئے وہ تیاریاں بھی شروع کرچکی ہیں۔ ریاست میں ہر جماعت اپنے اپنے طور پر سرگرم ہوچکی ہے ۔ برسر اقتدار بی آر ایس کی جانب سے تو بہت پہلے ہی یہ تیاریاں شروع کردی گئی تھیں۔ ریاست گیر سطح پر مہم کا منصوبہ الگ سے بنایا جا رہا ہے۔ ریاستی وزراء اور ارکان اسمبلی کو اپنے اپنے حلقوں میں سرگرم اور متحرک کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاو ہ حکومت کی جانب سے انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ریاست کے نئے سیکریٹریٹ کا بہت جلد افتتاح ہونے والا ہے ۔ اسے امبیڈکر بھون کا نام دیا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ سیکریٹریٹ کے قریب ڈاکٹر امبیڈکر کے طویل القامت مجسمہ کو نصب کیا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ انتخابات کی تیاریوں کا ہی حصہ ہے ۔ اس کے علاوہ پنجہ گٹہ چوراہے پر امبیڈکر مجسمہ نصب کرنے کی حکومت نے اجازت دیدی اور وہاں بھی مجسمہ نصب کردیا گیا ہے ۔ کانگریس کی جانب سے اس مجسمہ کی تنصیب کیلئے جدوجہد کی گئی تھی لیکن حکومت نے ابتداء میں اس سے انکار کردیا لیکن اب جبکہ انتخابات کا وقت قریب آنے لگا ہے تو حکومت نے اس کی تنصیب کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ریاستی وزیر کے ٹی آر نے نقاب کشائی انجام دی ۔
اس کے علاوہ بی جے پی بھی ریاست میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کرچکی ہے ۔ بی جے پی کا احساس ہے کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے ریاست میں انتخابات کروائے جانے چاہئیں جس کے ذریعہ کے سی آر کو انتخابی ہیٹ ٹرک سے روکا جاسکتا ہے ۔ کے سی آر اور ان کی ٹیم ریاست میں مسلسل تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے کے تعلق سے پرامید دکھائی دیتے ہیں لیکن بی جے پی مرکزی حکومت کی تائید اور مدد کے ذریعہ ریاست میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے چند ماہ قبل سے ہی اس نے جدوجہد شروع کردی ہے ۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے اثرات صرف میڈیا میں دکھائی دے رہے ہیں اور زمین حقائق اس کے مغائر ہیں ۔ بی جے پی کو مقامی سطح پر عوام کی تائید حاصل نہیں ہے اور اس کا کیڈر بھی عوام تک رسائی کے موقف میں نہیں ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی قائدین کو امیدیں ہیں کہ وہ مرکزی قیادت کے منصوبہ کے مطابق الیکشن میں مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ریاستی قائدین کا احساس ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے جلد ریاست میں انتخابات کروائے جانے چاہئیں تاکہ بی آر ایس اور کے چندر شیکھر راؤ کو جوابی حکمت عملی اور منصوبے پیش کرنے کا موقع نہ رہ سکے ۔ کانگریس بھی اپنے طور پر سرگرم ہوچکی ہے ۔ خاص طور پر صدر پردیش کانگریس ریونت ریڈی اپنی پد یاترا کے ذریعہ عوامی تائید حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے بھی ریاست میں سیاسی سرگرمی میں اضافہ کردیا تھا ۔
برسر اقتدار بی آر ایس ‘ بی جے پی اور کانگریس تینوں ہی جماعتیں ریاست میں اقتدار کی دعویدار ہیں۔ تاہم زمینی حقائق سبھی کیلئے مختلف اور مشکل نظر آتے ہیں۔ بی آر ایس کو اقلیتوں کی ناراضگی کا سامنا ہے ۔ بی آر ایس نے اقلیتوں کو جس طرح سے نظر انداز کیا ہے اس سے اقلیتوں کے ووٹ اسے ملنے مشکل ہوسکتے ہیں۔ کانگریس ان ووٹوں کو حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ۔ بی جے پی کو اندازہ ہے کہ وہ اکثریتی برداری کے ووٹوں کا خاطر خواہ حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کس جماعت کو عوام کی کتنی تائید حاصل ہوسکتی ہے اور کون سی جماعت عوام کی تائید حاصل کرتے ہوئے ریاست میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔