تلنگانہ میں انتخابی تیاریاں

   

ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کا باضابطہ آغاز ہوچکا ہے ۔ ان میں ہماری ریاست تلنگانہ بھی شامل ہے ۔ ویسے تو تلنگانہ میں دوسری ریاستوں کی طرح انتخابی اور سیاسی سرگرمیاں گذشتہ چند ماہ سے تیز ہونے لگی تھیں تاہم اب الیکشن کمیشن کی جانب سے عہدیداروں کی تعیناتی اور تبادلوں کے تعلق سے چیف سکریٹریز کو احکام و ہدایات کی اجرائی کے بعد ان میں مزید تیزی پیدا ہونے لگی ہے ۔ آئندہ وقتوں میں تمام سیاسی جماعتوں کی اپنی اپنی تیاریاں عروج پر پہونچ جائیں گی اور جب الیکشن کمیشن سے انتخابی اعلامیہ جاری کیا جائیگا تو سرگرمیاں اور بھی تیز ہونگی ۔ ریاست میں چندر شیکھر راؤ کی قیادت والی بھارت راشٹرا سمیتی اپنے اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اس کو یقین ہے کہ دو معیادوں تک اس کی کارکردگی کی بنیاد پر ریاست کے عوام اسے دوبارہ اقتدار سونپیں گے ۔ پارٹی میں ضرور کچھ ارکان اسمبلی کی کارکردگی کے تعلق سے شبہات ہیں اور داخلی سروے میں کچھ رپورٹس پارٹی کے خلاف بھی آئی ہیں تاہم کے چندر شیکھر راؤ کو امید ہے جب انتخابی ماحول اپنے عروج پر پہونچے گا وہ حالات کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ دوسری جانب کانگریس میں نیا جوش و خروش دکھائی دے رہا ہے ۔ پارٹی کے ریاستی قائدین میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ کچھ گوشوں کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو تلنگانہ امور کی نگرانی سونپی جائے گی ۔ تلنگانہ میں پرینکا گاندھی واڈارکی آمد سے کانگریس کے حوصلے اور امکانات دونوں ہی مزید بہتر ہوسکتے ہیں۔ کانگریس قائدین راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اور پھر کرناٹک میں پارٹی کی کامیابی اور اقتدار پر واپسی سے پرجوش ہیں۔ کارکنوں میں بھی حوصلے بلند نظر آنے لگے ہیں۔ کانگریس قائدین جو کبھی اپنی پارٹی کی کامیابی کے تعلق سے زیادہ پرامید گذشتہ نو سال میں نہیں دکھائی دئے تھے اس بار دکھائی دے رے ہیں۔ مرکزی قیادت کی جانب سے بھی ریاست کیلئے حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے اور ماحول پرجوش دکھائی دے رہا ہے ۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو وہ معمولی سی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے عوام کے درمیان موضوع بحث رہنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ ریاست میں بی جے پی کا کیڈر زیادہ مستحکم نہیں ہے ۔ جو کیڈر ہے وہ بھی پرجوش دکھائی نہیں دے رہا ہے اور خاص طور پر کرناٹک میں بی جے پی کی شکست کے بعد اس کے کیڈر کے حوصلے پست ہونے لگے ہیں۔ یہ دعوے بھی کئے جا رہے ہیں کہ بی جے پی کے کئی قائدین میں اختلافات ہیں۔ ان کے اپنے اپنے گروپس بن چکے ہیں۔ کچھ گروپس میں ایک دوسرے پر داخلی طور پر تنقیدیں ہو رہی ہیں اور ہائی کمان سے نمائندگی کی جا رہی ہے تو کچھ قائدین ایک دوسرے پر سر عام تنقیدیں کرنے لگے ہیں اور بیان بازیاں بھی تیز ہونے لگی ہیں۔ مرکزی قیادت بی جے پی کی ریاستی یونٹ سے مطمئن نہیں ہے تاہم اس کا عوامی حلقوں میں کھل کر اظہار نہیں کیا جا رہا ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست کے بعد بی آر ایس کے قائدین بھی یہ دعوی کرنے لگے ہیں کہ اب ریاست میں مقابلہ بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان ہی ہے ۔ بی جے پی مقابلہ میں نہیں ہے ۔ پہلے کے سی آر ‘ کے ٹی آر اور دوسرے قائدین یہ دعوی کرتے تھے کہ ریاست میں کانگریس مقابلہ میں نہیں ہے اور اصل مقابلہ بی آر ایس اور بی جے پی میں ہوگا ۔ کرناٹک کے نتائج نے بی آر ایس کے موقف میں تبدیلی ضرور پیدا کردی ہے اور بی آر ایس داخلی طور پر اپنے کارکنوں اور کیڈر کو جوڑے رکھنے کی جدوجہد بھی کرنے لگی ہے ۔
ایسا تاثر پیدا ہونے لگا ہے کہ انتخابات سے قبل بی آر ایس کی قریبی حلیف مجلس کے موقف میں بھی تبدیلی آ رہی ہے اور صدر مجلس بی آر ایس کو اپنی تقاریر میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے موقف کی تبدیلی بھی سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیںکہ ریاست میں از سر نو سیاسی صف بندی ہوسکتی ہے ۔ کانگریس کا دعوی ہے کہ دوسری جماعتوں کے کئی قائدین اس کے ساتھ آسکتے ہیں ۔ ان سے بات چیت ہو رہی ہے ۔ بی جے پی کئی قائدین کو شامل کرنا چاہتی تھی جو ہو نہیں پا رہا ہے ۔ بی آر ایس میں بھی کچھ ناراضگیاں پیدا ہونے لگی ہیں اور یہ صوررتحال انتخابات سے قبل پارٹی کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔