تلنگانہ میں بارش کی تباہ کاریاں

   

نئی رتو ںکے تقاضے وہی پرانے ہیں
گئی رتو ں کا ہر اک زخم بھر گیا شاید
تلنگانہ میں بارش نے قہر ڈھا دیا ہے ۔ گذشتہ دس دن کے دوران ہلکی سے تیز اور بہت تیز بارش نے ساری ریاست کو جل تھل کر کے رکھ دیا ہے ۔ عام زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئی ۔ کھڑی فصلوں کو بھاری نقصان ہوا ہے ۔ عوام کو بے طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سڑکیں بری طرح سے متاثر ہوگئی ہیں۔ بجلی کی سربراہی میں خلل ہوا ہے ۔ کئی مقامات پر بجلی کے کھمبے اور دیگر انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہونچا ہے ۔ بے تحاشہ بارش اور سیلاب میں گھرے افراد کیلئے پیٹ کی آگ بجھانا تک ممکن نہیں رہ گیا تھا ۔ کچھ اموات بھی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ کئی گھروں کو نقصان پہونچا ہے ۔ کچھ گھر پوری طرح سے منہدم ہوگئے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ اراضی پر فصلیں متاثر ہوگئی ہیں جن کے نتیجہ میں پہلے ہی سے مسائل کا شکار کسانوں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ حکومت کی جانب سے محض بچاؤ اور راحت کام کئے گئے ہیںاور وہ بھی صد فیصد نہیں کہے جاسکتے ۔ موجودہ جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اسے اب بھی سدھار والی حالت نہیں کہا جاسکتا کیونکہ کچھ اضلاع میں ہنوز بارش کا خطرہ برقرار ہے ۔ شدید بارش کی پیش قیاسی کی جارہی ہے ۔ ریاست کے کچھ اضلاع میں ہلکی سے اوسط بارش اور کچھ اضلاع میں شدید بارش کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری ہے ۔ ریاست کے تقریبا تمام آبپاشی پراجیکٹس لبریز ہوگئے ہیں۔ کئی پراجیکٹس سے فلڈ گیٹس کھول کر سیلاب کا پانی چھوڑا جا رہا ہے ۔ اس سے نچلے علاقوں میں مقیم افراد کیلئے مزید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ کچھ تالابوں کے پشتے یا تو ٹوٹ گئے ہیں یا پھر ان میں شگا ف پیدا ہوگیا ہے ۔ شہر کے بھی ذخائر آب کی سطح میں اضافہ ہوا ہے اور عثمان ساگر و حمایت ساگر سے پانی نشیبی علاقوں میں چھوڑا گیا ہے ۔ بحیثیت مجموعی ساری صورتحال انتہائی گہما گہمی والی ہے اور بڑے پیمانے پر تباہی اور نقصانات ہوئے ہیں۔ ان نقصانات کی پابجائی اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے بے تکان جدوجہد کی ضرورت ہوگی اور حکومت کو فراخدلانہ اقدامات کرنے ہونگے ۔ عوام کو ابتدائی راحت پہونچانے کا کام بھی فوری شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔
سیلاب کی صورتحال اور شدید بارش سے جو نقصانات ہوئے ہیں وہ معمولی نہیں ہیں۔ اس طرح کے نقصانات سے نمٹنے کیلئے مرکزی حکومت کو بھی تعاون کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ سب سے پہلے ریاست کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو سیلاب زدہ علاقوں کا شخصی طور پر دورہ کرتے ہوئے نقصانات کا خود جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ چیف منسٹر پرگتی بھون میں اجلاس طلب کرتے ہوئے عہدیداروں کو تمام ضروری ہدایات جاری کر رہے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے ۔ اس کیلئے خود چیف منسٹر کو متاثرہ مقامات اوراضلاع کے دورے کرنے ہونگے ۔ خود انہیں اپنی نگرانی میں نقصانات کی رپورٹ تیار کروانی ہوگی ۔ نقصانات کا تخمینہ کرنے کی ضرورت ہوگی اور پھر ساری کارروائی کی تکمیل کے بعد مرکز سے امداد کیلئے رجوع کیا جاسکتا ہے ۔ خود ریاستی حکومت کو بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ مرکزی حکومت کا جہاں تک سوال ہے اسے فراخدلانہ امداد کے ذریعہ ریاست سے تعاون کرنا ہوگا ۔ سیلاب سے متاثرہ عوام کی امداد کے معاملہ میں سیاسی اختلافات کو رکاوٹ بننے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے اور اس میں کسی کو بھی سیاست نہیں کرنی چاہئے ۔ مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومت ہو سبھی کو متاثرین کی امداد کے نقطہ نظر سے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو مشکلات سے باہر نکالنے اور انہیں راحت پہونچانے کو ہی ترجیح دی جانی چاہئے ۔ اس معاملہ میں کسی مصلحت سے کام لینا اخلاقی اعتبار سے بھی درست نہیں ہوگا ۔
چیف منسٹر کی جانب سے ریاست کے متاثرہ مقامات کا دورہ کرنے کے بعد مرکز کے بھی کسی ذمہ دار نمائندہ کو ریاست کے متاثرہ مقامات کا دورہ کرنا ہوگا ۔ ریاستی اور مرکزی عہدیداروں کو باہمی تال میل اور اشتراک کے ذریعہ متاثرین کی مدد کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ چیف منسٹر کو پرگتی بھون سے باہر نکلتے ہوئے عوام کے درمیان پہونچنا چاہئے ۔ چیف منسٹر کے دورہ سے قبل مرکزی حکومت سے کسی طرح کی شکایت واجبی نہیں کہی جاسکے گی ۔ ریاست کی اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس معاملہ میں حتی المقدور کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین کو جلد اور ممکنہ حد تک راحت پہونچائی جاسکے ۔