تلنگانہ میں تبدیلی کے واضح اشارے

   

ڈی کے سنگھ
ریاست تلنگانہ میں بی جے پی ایسا لگ رہا تھا کہ اقتدار حاصل کرنے بہت زیادہ سنجیدہ ہے۔ وہ بار بار دعوے کررہی تھی کہ جنوبی ہند کی اس ریاست میں اسے کامیابی ملے گی اور وہ حکومت بنائے گی لیکن اچانک بی جے پی نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے اور کانگریس تلنگانہ میں اقتدار کی دعویدار کے طور پر دوبارہ ابھر گئی۔ کانگریس کے آگے آنے کی سب سے بڑی وجہ بی جے پی نے جس انداز میں مقابلہ سے دستبرداری کی علامتیں ظاہر کی وہ رہی اُس طرح ریاست تلنگانہ میں اب ایسا محسوس ہونے لگا ہیکہ کانگریس میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا ہوا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران حکمراں بی آر ایس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کانگریس نے ایکس پر ایک شادی کا رقعہ یا ویڈنگ کارڈ پوسٹ کیا۔ # BRSLOVES BJP ہیش ٹیگ کے ساتھ پوسٹ کردہ اس رقعہ میں بی آر ایس۔ بی ج پی کی تاریخِ شادی کے طور پر 30 نومبر بتائی گئی اور مقام شادی چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے فارم ہاؤز کو بتایا گیا۔ واضح رہیکہ 30 نومبر کو ریاست میں رائے دہی ہوگی اور 3 ڈسمبر کو میزورم، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے ساتھ نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ بی آر ایس، بی جے پی شادی کا کارڈ تو جاری کردیا گیا، جہیز کے بارے میں بھی فویڈنگ کارڈ میں بتایا گیا کہ چیف منسٹر کے سی آر کی دختر اور بی آر ایس ایم ایل سی کے کویتا کو دہلی شراب اسکام میں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ ہاں احتجاجی مظاہروں، کالیشورم آبپاشی پراجکٹ پیپر افشاء معاملہ میں کوئی سی بی آئی تحقیقات نہیں ہوگی اور بنڈی سنجے کو جی کشن ریڈی کی جگہ ریاستی بی جے پی صدر مقرر کرنے پر سات پھیرے ہوں گے۔ کانگریس کی جانب سے جاری کردہ شادی کا رقعہ حقیقت میں دیکھا جائے تو حس مزاح کا ایک نمونہ ہے اور ساتھ ہی تبدیلی کی طرف اشارہ کرنے والا ایک پیغام ہے۔ فی الوقت تلنگانہ میں انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ ریاست میں اس مرتبہ کے انتخابات میں بہت گرماگرم مہم جاری ہے۔ کانگریس، بی آر ایس اور اسدالدین اویسی کی کل ہند مجلس اتحادالمسلمین پر بی جے پی کی B اور C ٹیم ہونے کے الزامات عائد کررہی ہے۔ دی پرنٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بی آر ایس لیڈر نے کانگریس الزامات کا جواب دیتے ہوئے سوال کیا کہ آخر نیشنل ہیرالڈ کیس میں راہول گاندھی کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا۔ جہاں تک کانگریس، بی آر ایس پر بی جے پی کے ساتھ رہنے کا الزام عائد کررہی ہے اور یہ ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کررہی ہیکہ اس کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ مسلم ووٹ بنک ہے۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی جملہ آبادی کا 13 فیصد ہے اور کہا جاتا ہے کہ 119 اسمبلی حلقوں میں سے تقریباً ایک تہائی حلقوں میں مسلمان نتائج پر اثرانداز ہوسکتے ہیں یعنی ان حلقوں میں مسلمان جس کی تائید کریں گے وہ امیدوار اور وہ پارٹی کامیاب ہوگی۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہیکہ کانگریس تلنگانہ میں انتہائی جارحانہ انداز میں مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کررہی ہے۔ اس معاملہ میں وہ اے آئی ایم آئی ایم پر بھی تنقید سے گریز نہیں کررہی ہے۔ شاید کانگریس ان انتخابات میں ایم آئی ایم پر جس طرح سخت تنقید کررہی ہے اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ راہول گاندھی نے تو اسد اویسی کی پارٹی پر مختلف ریاستوں میں اپنے امیدوار میدان میں اتارنے کیلئے رقم حاصل کرنے کا سنگین الزام بھی عائد کیا۔
گاندھی اور اویسی:۔ کانگریس قائدین کی جانب سے AIMIM کو بی جے پی کی B ٹیم قرار دینا کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن گاندھی خاندان کے کسی فرد نے اویسی کی پارٹی کو برسرعام تنقید کا نشانہ بنایا اور ایسا نشانہ بنایا کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک ایسا بھی وقت تھا جب گاندھی خاندان کے اسدالدین اویسی کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کانگریس آندھراپردیش کو تقسیم کرنے کے امکان پر غور کررہی تھی، اسدالدین اویسی نے سونیاگاندھی سے پرزور انداز میں کہا تھا کہ ریاست کی تقسیم ایک برا خیال ہے حالانکہ انہیں اور ان کی پارٹی کو ریاست میں بی جے پی کے عروج سے فائدہ ہی حاصل ہوگا۔ چنانچہ کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے کی تائید و حمایت سے ایم آئی ایم کی دستبرداری کے بعد کانگریس نے ایم آئی ایم کو دوبارہ اپنے اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کی جس کا ثبوت یہ ہیکہ 2014ء کے عام انتخابات میں سونیا گاندھی نے سینئر لیڈر ڈگ وجئے سنگھ کو اویسی سے ملاقات کیلئے حیدرآباد بھیجا تاکہ انہیں یو پی اے میں واپس لایا جاسکے۔ ڈگ وجئے سنگھ سے اپنی ملاقات کو خفیہ رکھنے کیلئے اویسی ایک بلٹ موٹر سائیکل پر اُس ہوٹل پہنچے جہاں ڈگ وجئے سنگھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس وقت ایسا ہوا کہ ڈگ وجئے سنگھ نے اسد اویسی کو کچھ گھنٹے انتظار کروایا جس کے نتیجہ میں کانگریس کے ساتھ نہ جانے سے متعلق اپنا فیصلہ اویسی کو کچھ ٹھیک لگا۔ بہرحال جیسے ہی اویسی نے دوسری ریاستوں میں اپنے امیدوار انتخابی میدان میں اتارنے شروع کئے اور روایتی طور پر کانگریس کی تائید کرنے والے مسلمانوں کے ووٹ انہیں حاصل ہونے لگے دونوں جماعتوں کے درمیان تلخیاں مزید بڑھ گئیں۔ اس کے باوجود گاندھی خاندان کے کسی رکن نے اویسی کو راست تنقید کا نشانہ نہیں بنایا لیکن گذشتہ ماہ راہول گاندھی نے تلنگانہ کی ایک انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اویسی بی جے پی سے پیسہ لیکر اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارتے ہیں تاکہ کانگریس کے امیدواروں کو شکست ہو۔
کانگریس کی اقلیتی سیاست میں تبدیلی:۔ ایم آئی ایم اور اویسی پر کانگریس کے سابق صدر کی تنقید سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ کانگریس اپنی پالیسی بالخصوص مسلمانوں کے تئیں حکمت عملی کو تبدیل کررہی ہے۔ پچھلے جمعرات کو تلنگانہ کانگریس نے اقلیتی ڈیکلریشن جاری کیا، جس میں اقلیتوں کیلئے کئی ایک مراعات کے وعدے کئے گئے۔ واضح رہیکہ 2014ء کے عام انتخابات میں ناکامی کا جائزہ لینے والے اے کے انٹونی نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہیکہ کانگریس اقلیتوں کے تئیں خوشامدی کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اس کے بعد یہ دیکھا جانے لگا کہ کانگریس اور اس کے لیڈروں نے ایک موافق ہندو شناخت پر مبنی شبیہ بنانی شروع کی اور یہ لوگ مسلم مسائل اٹھانے کے معاملہ میں بھی احتیاط برتتے دکھائی دیئے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات جس میں مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ دینے کی خاطر جنتادل (سیکولر) کو فراموش کردیا، ایسا لگتا ہیکہ کانگریس کو اقلیتوں کے تئیں اپنی پالیسی اور حکمت پر ازسرنو غور کرنے پر مجبور کردیا جس کا اندازہ ہم تلنگانہ میں کانگریس کی جانب سے مسلم رائے دہندوں کو راغب کرنے سے متعلق جارحانہ کوششوں سے لگا سکتے ہیں۔ ریاست تلنگانہ میں کانگریس کو امید ہیکہ اگر یہاں کے مسلم رائے دہندے کرناٹک ماڈل کو قبول کرتے ہیں تو بی آر ایس کو شکست ہوگی۔ تاریخی شہر حیدرآباد کے تاریخی چارمینار کے قریب بازار میں گذشتہ ہفتہ مجھے جانے کا موقع ملا، جہاں میری سماعت ایک ریکارڈ کردہ آواز سے ٹکرائی۔ ’’محبت کا میٹھا شربت صرف 20 روپئے میں بیس روپئے میں‘‘ وہاں موجود خریدار یا صارفین شربت کے اسٹال پر پہنچ کر محبت کا شربت پینے لگے۔ دراصل تربوز کے ٹکڑوں کو دودھ میں برف ملا کر یہ شربت تیار کیا گیا تھا۔ یہ شربت فروخت کرنے والے انوپ گوپال راؤ پاٹل اسے محبت کی دکان نہیں کہتے۔ راہول گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران اس جملہ کا استعمال کیا تھا۔ پاٹل نے دعویٰ کیا کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر راہول گاندھی کا نعرہ بے چین صارفین کی مدد کرنا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔ اس اسٹال سے کچھ فاصلہ پر شیخ اعزاز ایمبرائیڈری کی ساڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسدالدین اویسی نے اس بات کیلئے اللہ کی قسم کھائی ہے کہ ان کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بی آر ایس نے مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا لیکن مرکز میں کانگریس کی حکومت بہتر ہوگی۔ ایک بات تو ضرور ہیکہ ریاست تلنگانہ میں تبدیلی کی لہر واضح ہے۔ حیدرآباد سے 165 کیلو میٹر دور کریم نگر کی اسلم مسجد کے امام محمد سیف الدین کہتے ہیں کہ اس مرتبہ کانگریس کی تائید و حمایت کی جانی چاہئے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اویسی مسلمانوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کرکے ایک طرح سے بی جے پی کی مدد کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ راہول گاندھی نے دل سے دل ملانے کا کام کیا ہے۔ مسلم ووٹ تقسیم نہیں ہونے چاہئے۔ اگر آج مرکز میں بی جے پی کا اقتدار ہے تو اس کی ایک وجہ مسلم ووٹوں کی تقسیم ہے۔ ہم نے کئی مقامات پر مسلمانوں سے بات کی جس سے پتہ چلتا ہیکہ کانگریس کی تائید و حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو بی آر ایس کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں بی آر ایس مذہبی امتیاز نہیں برتتی اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ایک بات ضرور ہیکہ تلنگانہ کے انتخابات میں خاص طور پر مسلم ووٹ آنے والے دنوں میں 28 پارٹیوں کے اپوزیشن اتحاد INDIA کی طاقت کا بھی تعین کردیں گے۔ اگر تلنگانہ میں کرناٹک جیسے نتائج برآمد ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں 2024ء کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس دوسری اپوزیشن جماعتوں کیلئے ایک بڑے بھائی کا موقف بادرجہ حاصل کرلے گی۔