تلنگانہ میں سیاسی غیر یقینی صورتحال

   

سانپ اپنے آستینوں میں چھپا رکھتے ہیں جو
فاصلہ ملنے میں ان سے درمیاں رکھتا ہوں میں
ویسے تو ہندوستان کی ہر ریاست اور ہر شہر میں انتخابات سے قبل سرگرمیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور قائدین سرگرم ہوتے ہوئے اپنے اپنے منصوبوںپر عمل کرنے لگتے ہیں اور عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کرنے لگ جاتے ہیں۔ تاہم کچھ ریاستوں اور شہروں میںایک طرح کا اضطراب بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک طرح کی غیر یقینی کیفیت ہوتی ہے جس میں کوئی بھی جماعت یا امیدوار اپنے مستقبل کے تعلق سے قطعیت کے ساتھ کوئی دعوی نہیں کرسکتا ۔ تلنگانہ میں بھی تقریبا ایسی ہی صورتحال دکھائی دینے لگی ہے ۔ حالانکہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی قیادت والی بھارت راشٹرا سمیتی کا مسلسل یہ دعوی ہے کہ وہ لگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے جا رہی ہے اور ریاست کے عوام کے سی آر کی حکمرانی سے خوش اور مطمئن ہیں۔ بی آر ایس کا دعوی ہے کہ اپوزیشن جماعتوںاور خاص طور پر کانگریس کی کوششیں کامیاب نہیںہونگی اور ریاست کے عوام ایک بار پھر اسے مسترد کردیں گے ۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے تو وہ بھی پرجوش انداز میںانتخابات میں قسمت آزمائی کیلئے تیار دکھائی دے رہی ہے ۔ صدر پردیش کانگریس ریونت ریڈی اور دوسرے کئی قائدین پوری مستعدی کے ساتھ انتخابات کی تیاریوں میںجٹ گئے ہیں۔ وہ بھی عوام سے رابطے کرتے ہوئے تائید حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ کانگریس قائدین کا بھی دعوی ہے کہ وہ بی آر ایس کو اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے خود اقتدار چھیننے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ اسے 70 سے زائد نشستوں پر فی الحال کامیابی مل سکتی ہے اور انتخابات کا وقت آتے آتے اس تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی اس دوڑ میں کہیں پیچھے رہ گئی ہے ۔ بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خود بی جے پی نے کانگریس کو روکنے اور بی آر ایس کو کامیاب بنانے کیلئے اپنے قدم روک لئے ہیں۔ بی جے پی کیلئے اپنی کامیابی سے زیادہ کانگریس کی کامیابی کو روکنا اہم ہے ۔ بی جے پی کو اندیشے ہیں کہ اگر تلنگانہ میں کانگریس کامیاب ہوجائے تو پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے تلنگانہ میں اپنے قدم روک لئے ہیں اور در پردہ بی آر ایس کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کیلئے وہ آمادہ نظر آتی ہے ۔
اقتدار کی دعویدار جماعتوں کے اپنے اپنے اندازے ہیں اور سروے بھی ہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ فی الحال ریاست میں صورتحال بالکل غیر یقینی ہے ۔ بظاہر مقابلہ کانٹے کا دکھائی دینے لگا ہے اور لمحہ آخر میں جس بھی جماعت کو عوام کی ذرا سی اضافی تائید حاصل ہوجائے وہ اقتدار پر فائز ہوسکتی ہے ۔ ریاست میں ہر طبقہ کے ووٹرس اپنے اپنے مسائل کے اعتبار سے اپنی حکمت عملی طئے کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت ہر طبقہ کو خوش اور مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہر طبقہ کیلئے اور سماج کے ہر گوشے کیلئے علیحدہ اسکیمات اور پروگرامس کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ ہر طبقہ کی تائید حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ کئی طرح کے وعدے بھی کئے جا رہے ہیں اور ووٹرس کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ریاست کے عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اور غیر جانبداری کے ساتھ سوچ و فکر کے بعد اپنے ووٹ کے تعلق سے فیصلہ کریں۔ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ یہ دیکھیں کہ اس نے کتنے وعدے کئے تھے ۔ کتنے وعدے پورے کئے ہیں۔ اقتدار پر فائز رہتے عوام کو کیا کچھ سہولیات دی گئی ہیں۔ کیا کچھ وعدوں کو زبانی جمع خرچ کی طرح فراموش کردیا گیا ہے ۔ حکومت مزید کیا کچھ کرسکتی ہے ۔ اس کحے قول و فعل میں یکسانیت ہے یا پھر تضاد پایا جاتا ہے ۔ جو جماعت عوام سے مستقبل کیلئے وعدے کر رہی ہے اس کا ریکارڈ بھی پیش نظر رکھا جانا چاہئے ۔
عوام کے موڈ کا جو اندازہ سیاسی جماعتوں کو ہو رہا ہے اس میں ان کی بے چینی بڑھ رہی ہے ۔ خاص طور پر بھارت راشٹرا سمیتی کی تشویش اور فکر میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ذرائع کے بموجب جو سروے سامنے آ رہے ہیںان کے مطابق بی آر ایس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جب تک انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوگا اس وقت تک حالات اور بھی بگڑ سکتے ہیں۔ عوام کے سامنے ہر جماعت اپنی کامیابی کے دعوے تو ضرور کر رہی ہے لیکن داخلی حلقوں میں وہ تشویش کا شکار ہے ۔ اسی کیفیت میں نت نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور وعدوں کی بارش ہو رہی ہے ۔ کوئی بھی جماعت عوام کے موڈ کو اور ان کی نبض کو بالکل قطعیت سے سمجھنے میں کامیاب ہوتی بالکل بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔
کرپشن پر امیت شاہ کا بیان
ہندوستانی سیاست میں کرپشن کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وقفہ وقفہ سے تقریبا ہر حکومت کے خلاف اور ہر حکومت میںشامل افراد کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں۔ سینکڑوں معاملات میںشائد ہی کوئی معاملہ ایسا ہوتا ہے جس میںخاطی کو سزا ملتی ہو یا پھر اسے منطقی انجام تک پہونچایا جاتا ہو ۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ کرپشن کے الزامات پر سیاست ضرور ہوتی ہے ۔ ایسا ہی معاملہ بی جے پی کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے چھتیس گڑھ میں ایک ریلی سے خطاب میں کہا کہ بدعنوان افراد کو الٹا لٹکا کر سیدھا کیا جائیگا ۔ امیت شاہ کا یہ ریمارک قابل غور ہے کیونکہ یہ سیدھا کرنا اگر بی جے پی میں شامل کرنا ہے تو پھر ان کی بات درست ہے ۔ بی جے پی کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ مخالف جماعتوں میں شامل درجنوں ایسے قائدین تھے جن پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات تھے ۔ خود بی جے پی نے یہ الزام عائد کئے تھے اور بعض کے خلاف مقدمات بھی درج تھے ۔ کارروائیاں بھی شروع کی گئی تھیں۔ تاہم جیسے ہی یہ قائدین بی جے پی میں شامل ہوگئے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔ ان کے خلاف الزامات کا تذکرہ تک نہیں کیا جاتا ۔ گودی میڈیا بھی انہیں فراموش کردیتا ہے ۔ کچھ قائدین کو تو دستوری اور سرکاری عہدے تک فراہم کردئے جاتے ہیں اور پھر سب کچھ ٹھیک دکھائی دینے لگتا ہے ۔ کرپشن کے تعلق سے بی جے پی کے یہ معیارات دوہرے ہیں اور کرپشن کو ختم کرنے کے بی جے پی کے دعووں پر عوام کو یقین نہیں ہو پائے گا ۔