تلنگانہ نے اپوزیشن کی ناک بچالی

   

ظفر آغا
بس یوں سمجھیے کہ تلنگانہ نے لاج رکھ لی۔ کہیں تلنگانہ کے اسمبلی چناؤ کے نتائج مختلف ہوتے تو سمجھیے کہ امید کا ستارا ڈوبا تھا۔ یوں بھی سنہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ کا چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ جناب چار اہم ریاستوں میں سے تین بی جے پی نے جیت لیں۔ ان میں سے بھی دو یعنی چھتیس گڑھ اور راجستھان کانگریس کے ہاتھوں سے چھین لیں۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی پانچویں بار اقتدار میں واپس آ گئی۔ رہی ریاست میزورم، تو وہ کس کھیت کی مولی۔ یعنی تلنگانہ بھی کانگریس کو نہیں ملتی تو ناک کٹ جاتی۔ اب شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ اگلا لوک سبھا چناو? کار دارد ہوا۔
تلنگانہ نے صرف عزت ہی نہیں بچا لی بلکہ کانگریس کو نئی طاقت دے دی۔ تلنگانہ چناؤ کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ جنوبی ہندوستان پوری طرح اپوزیشن کا قلعہ بن گیا۔ کرناٹک اور تلنگانہ اب کانگریس کے پاس ہے جبکہ کیرالہ اور ٹاملناڈو بائیں بازو اور ڈی ایم کے کی جھولی میں ہے۔ دہلی اور پنجاب کو چھوڑ تمام ہندی بیلٹ والی ریاستیں بی جے پی اور ہندوتوا نظریہ کا گڑھ بن چکی ہیں۔ ادھر گجرات دہائیوں سے سنگھ کی سیاست کا مرکز ہے۔ بس مہاراشٹر، بہار اور بنگال سے کچھ امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اپوزیشن کتنا متحد رہتا ہے۔ حالیہ چناؤ میں تو اپوزیشن کا کوئی بھی اتحاد نہیں ہو سکا۔ ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ بی جے پی نے پوری طرح اٹھایا۔ یعنی وقت کی سب سے اہم ضرورت اپوزیشن کا اتحاد ہے۔ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری کانگریس پر ہے۔ جیسا مختلف لیڈران کہہ رہے ہیں کہ کانگریس کو اب بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سنہ 2004 میں لوک سبھا چناؤ کے وقت کانگریس نے یہ کام بخوبی کیا تھا اور اس کا فائدہ تمام اپوزیشن کو ملا تھا۔ اب کانگریس صدر کھڑگے کی ذمہ داری ہے کہ وہ بڑپن کا ثبوت دیں۔ محض کانگریس کا ہی نہیں بلکہ مختلف بی جے پی مخالف پارٹیوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
پانچ ریاستوں کے چناوی نتائج آئے پورا ایک ہفتہ گزر گیا۔ ان نتائج کا ہر طرح سے تجزیہ ہو چکا ہے۔ ہمارے لیے ان نتائج کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مسلم ووٹر اب ذی ہوش گروہ بنتا جا رہا ہے۔ وہ جوش سے نہیں ہوش سے کام لے رہا ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین جیسی مسلم پارٹی کی خود اس کے قلعے حیدر آباد میں اثرات کچھ کم ہوئے ہیں۔ جہاں جہاں چناؤ ہو رہے ہیں وہاں وہاں مسلم ووٹر کا جھکاؤ کانگریس کی طرف ہو رہا ہے۔ یہ اچھی خبر ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ووٹر ہر سیٹ پر یہ دیکھیں کہ کون سی اپوزیشن پارٹی ان کی سیٹ پر بی جے پی کو ہرا سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو پھر کام بن جائے گا۔ خیر، 2024 مشکل ضرور ہے، مگر ناقابل تسخیر نہیں۔