تین طلاق کے بعد صحبت حرام ہے

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا عقد مسماۃ ہندہ سے ہواتھا۔ چھ ماہ تک تعلقات خوشگوار رہے۔ ساتویں مہینے میں بغرض زچگی لڑکی والے مسماۃ مذکورہ کو اپنے گھر لے گئے۔ اس کے بعد سے اختلافات پیدا ہوگئے حتی کہ شوہر نے ذریعہ تحریر تین طلاق لکھ کر بھیجدیا اور اس کے بعد بھی دو تین دفعہ زبانی طلاق بھی کہدیا۔ اس کے باوجود لڑکی والے طلاق کا کوئی اعتبار نہیں کئے۔ مسماۃ مذکورہ کے بطن سے ایک بچی تولد ہوئی۔ زید اپنی دختر کو دیکھنے جاتا رہا اِس دوران وہ مطلقہ سے صحبت بھی کیا۔ کیونکہ طلاق کا کوئی اعتبار نہیں کیا جارہا تھا۔
اب خاندان کے بڑے لوگ چاہتے ہیں کہ دونوں پھر سے رشتئہ ازدواج میں منسلک ہوجائیں۔ اس کے لئے دونوں بھی راضی ہیں۔
ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں زید نے جس وقت مسماۃ ہندہ کو تحریراً تین طلاق دیدیا اُسی وقت دونوں میں تفریق ہوگئی اور تعلق زوجیت ختم ہوگیا اور وضع حمل کے ساتھ ہی عدت ختم ہوگئی۔ عالمگیری جلد اول ص ۳۴۸ میں ہے وزوال حل المناکحۃ متی تم ثلاثا کذا فی محیط السرخسی۔ زید نے ہندہ سے بعد میں جو صحبت کی وہ حرام تھی۔ آخری مرتبہ صحبت کے بعد سے مزید تین حیض عدت گزارنا ہندہ پر واجب ہے۔عالمگیری جلد اول ص ۵۳۳ میں ہے وأما المطلقۃ ثلاثا اذا جامعھا زوجھا … ولو ادعی الشبھۃ بأن قال ظننت أنھا تحل لی تستأنف العدۃ بکل وطأۃ و تتداخل مع الأولیٰ۔ اب دونوں بغیر حلالہ آپسمیں دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے۔ یعنی ہندہ بعد ختم عدت (تین حیض) کسی دوسرے شخص سے عقد صحیح کرلے اور وہ شخص بعد صحبت و دخول مرجائے یا طلاق دیدے اور اس کی عدت بھی ختم ہوجائے تو شوہر اول (زید) سے دوبارہ عقد ہوسکتا ہے۔ ہدایہ کتاب الطلاق فصل فیما تحل بہ المطلقۃ میں ہے وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ و ثنتین فی الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحاً صحیحاً و یدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنہا۔
ذوی الارحام عصبہ کی وجہ میراث سے محروم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر صاحب کا لاولد انتقال ہوا، ورثاء میں مرحوم بڑے بھائی کی ایک لڑکی ، چھوٹے مرحوم بھائی کا ایک لڑکا ، دولڑکیاں اور مرحومہ بہن کی ایک لڑکی موجود ہیں۔
ایسی صورت میں مرحوم کا متروکہ ان پر کس طرح تقسیم ہوگا ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں تمام متروکئہ بکر مرحوم سے انکی تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کئے جاکر جس نے خرچ کئے ہیں اس کو دیئے جائیں۔ پھر مرحوم کا قرض ادا کیا جائے۔ اس کے بعد مرحوم نے اگر کسی غیر وارث کے حق میں کوئی وصیت کی ہوتو بقیہ مال کے تیسرے حصہ سے اس کی تعمیل کی جائے۔ بعد ازاں جو کچھ بچ رہے اس کے پانے کے مستحق تنہا مرحوم کا بھتیجا ہے۔ بھتیجیاں اور بھانجی ذوی الارحام سے ہیں جو عصبہ (بھتیجے) کی موجودگی میں محروم رہتے ہیں۔ قدوری کتاب الفرائض میں ہے اذا لم یکن للمیت عصبۃ ولا ذو سھم ورثۃ ذوو الارحام۔
فقط واﷲ تعالی أعلم