جارحانہ فرقہ پرستی ‘ ذمہ دار کون ؟

   

زندگی کے حسین چہرے پر
غم ن ے کتنے حجاب ڈالے ہیں
جارحانہ فرقہ پرستی ‘ ذمہ دار کون ؟
جس وقت سے ملک میں کورونا وائرس کی وباء نے سر ابھارا ہے اس وقت سے عام آدمی سب سے زیادہ پریشان اور مشکلات کا شکار ہے ۔ سماجی سطح پر ایک دوسرے کی مدد کرنے اور لوگوں کی تکالیف کو دور کرنے کے رجحان نے تقویت حاصل کی تھی ۔ عوام کی آپس میں مدد کے رجحان میں اس بات کا کوئی احساس نہیں تھا کہ کون کس مذہب سے یا کون کس ذات سے تعلق رکھتا ہے ۔ تاہم تبلیغی جماعت کے اجتماع کو جس انداز سے زرخرید میڈیا نے ایک الگ ہی رنگ دے کر پیش کیا ہے اور سماج میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کا کام کیا ہے اس کی وجہ سے سماج میں ایک طرح سے لکیر پیدا ہونے لگی ہے ۔ لوگ معمولی ترکاری یا میوے جات خریدنے کیلئے بھی اب ہندو اور مسلمان کرنے لگے ہیں۔ شمالی ہند کے کئی شہروں بشمول دہلی اور اترپردیش جیسی ریاستوں میں اور ہماچل پردیش میں ٹھیلہ بنڈی والوں کیلئے جھنڈے مختص کردئے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ دواخانوں میں مسلمان مریضوں کا علاج کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے جس کی مثال تلنگانہ کے کریمنگر میں واقع ایک دواخانہ سے سامنے آئی ہے ۔ اسی طرح گجرات میں ہندو مریضوں کے وارڈ الگ اور مسلمان مریضوں کے وارڈ الگ کردئے گئے ہیں۔ اس صورتحال نے ملک کو عملا تقسیم کرنے کا کام کیا ہے ۔ اس کام میں زر خرید میڈیا نے تیل ڈالنے اور پٹرول چھڑکنے کا کام کیا ہے ۔ جس طرح سے ان ٹی وی اینکروں نے اپنی ٹی آرپی اور بیمار ذہنیت کو مطمئن کرنے کیلئے سماج کو تقسیم کرنے کا کام کیا ہے اس کے نتیجہ میں نہ صرف جنونی عناصر بلکہ سماج میں ایک مقام رکھنے والے ذمہ دار افراد تک بھی فرقہ پرستی کا زہر اگلنے کی شروعات کرچکے ہیں۔ اس کی مثال اداکارہ کنگنا راناوت کی بہن رنگولی چنڈیل کی ہے ۔ چنڈیل نے ایک ٹوئیٹ کرتے ہوئے’ ملا ‘ لوگوں کو نشانہ بنایا ہے اور ایک قطار میں کھڑا کرکے ان کو گولی مارنے کی بات کی ہے ۔ انتہائی ناشائستہ زبان بھی انہوں نے استعمال کی ہے ۔ ٹوئیٹر نے ان کا اکاونٹ معطل کردیا ہے جس پر وہ چراغ پا ہوگئیں۔ یہ سارا کچھ میڈیا کا کیا دھرا ہے جس نے ہر ذہن کو زہر آلود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔
جس طرح سے رنگولی چنڈیل نے زہر افشانی کی ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔ ٹوئیٹر کی جانب سے ان کا اکاونٹ معطل کردینا کافی نہیں ہے بلکہ حکومت کو چاہے وہ ریاستی حکومت ہو یا پھر مرکزی حکومت ہو حرکت میں آنا چاہئے ۔ ان کے خلاف سماج میں نفرت پھیلانے کی پاداش میں سخت گیر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہئے ۔ جس طرح سے معمولی باتوں پر تبلیغی جماعت والوں کو نشانہ بنانے میں تقریبا ہر ریاستی حکومت اور مرکزی ایجنسیوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے اسی طرح سماج میں منافرت کو ہوا دینے والے عناصر کے خلافر بھی سخت ترین دفعات کے تحت کارروائی کرتے ہوئے دوسروں کیلئے مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ مہاراشٹرا میں چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے نے میڈیا گھرانوں کو بھی نہیں بخشا اور سستی شہرت اور بیمار ذہنیت کی بھوک مٹانے کسی بھی حد تک گرنے والے ٹی وی اینکروں کے خلاف بھی انہوں نے مقدمہ درج کروادیا ہے ۔ مہاراشٹرا پولیس نے افواہیں پھیلانے والے ٹی وی چینل کے کارکنوں پر بھی مقدمات درج کئے ہیں۔ یہ مثال سارے ملک میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کو بھی یہ موقع نہیں دیا جانا چاہئے کہ وہ ہندوستانی روایات کی پامالی کریں اور اپنی بیمار ذہنیت کی وجہ سے سماج میں نفرت پھیلانے میں کامیاب نہ ہوں۔ ایسے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے ملک بھر میں مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب ساری دنیا میں کورونا وائرس نے کہرام مچادیا ہے ہندوستان بھی اس سے متاثرہے فرقہ پرستی کا کھیل کھیلنا یا اس کی حوصلہ افزائی کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتا بلکہ یہی اصل ملک دشمنی ہے ۔ ہندوستان نے سبھی مذاہب کے ماننے والوں اور سبھی ذات پات سے تعلق رکھنے والوں کے تعاون کے نتیجہ میں ہی لاک ڈاون کو کامیاب کیا ہے ۔ عوام کے تعاون کی وجہ سے ہی کورونا کی وباء کو شدت کے ساتھ پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اگر اس موقع پر بھی ہندو مسلم کا راگ الاپتے ہوئے ملک کی فضاء کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کیلئے یقینی طور پر زرخرید میڈیا اور ٹی وی اینکرس ذمہ دار ہونگے اور جو لوگ بے لگام زہر افشانی کر رہے ہیں وہ بھی اپنی ذمہ داری سے بری قرار نہیں دئے جاسکتے ۔ حکومت کو ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہی ہوگی ۔