جامعہ ملیہ اسلامیہ میں احتجاجیوں پر فائرینگ کرنے والے شخص کو پولیس خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہی تھی

,

   

نئی دہلی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اسٹوڈنٹس کے راج گھاٹ تک مارچ پر جمعرات کے روز ہوئی فائرینگ دراصل اس شخص کی کہانی ہے جو آتشی اسلحہ لہراتے ہوئے لوگوں پر کھلی فائرینگ کررہاتھا اور پولیس خاموش تماشائی بن کر اس کو دیکھ رہی تھی۔

جب گوپال‘ مذکورہ حملہ آور نے بندوق لہرائی اور طلبہ پر گولی داغنے کی دھمکی دی اس وقت بڑی مشکل سے ایس ایچ او اوپیندر سنگھ اپنے درجنوں پولیس جوانوں کے ساتھ دس میٹرکے فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے۔

مگر انہوں نے فائرینگ روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھائے‘ باوجود اسکے طلبہ پولیس سے مدد کی گوہارلگارہے تھے۔

جب گوپال نے گولی چلائی وہ شاداب فاروق کو جاکر لگی جو ماس کمیونکشن کا طالب علم ہے اور اس کاہاتھ زخمی کردیا۔اور مذکورہ پولیس اس کے بعد حرکت میں ائی وہ بھی نہایت سست رفتاری کے ساتھ۔صرف ایک جوان نے حملہ آور کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے۔

اس کے بعد بھی پولیس نے بریکٹس نہیں ہٹائے تاکہ زخمی طالب علم کو اسپتال لے جایاسکے‘ شاداب خود بریکٹس پر چڑھائی کی اور طبی نگہداشت کے لئے دوڑا۔ڈی سی پی چنموئے بسوال نے کہاکہ ”میں ہولی فیملی اسپتال کی گیٹ کے پا س تھا جس وقت فائرینگ ہوئی ت۔ مجھے نہیں معلوم تھا کیاہوا ہے

۔گولی کی آواز سن کر میں وہاں پر دوڑ کر گیا“۔ فائرینگ اس وقت ہوئی جب مارچ گیٹ نمبر 7سے فورٹیس اسپتال کراسنگ کی طرف محض60میٹر ہی آگے بڑھاتھا۔

مذکورہ طلبہ وہاں پر نعرے لگارہے تھے اور گیت گارہے تھے۔ ایک طالب علم ظہیر نے کہاکہ ”جب ہم نے پستول لہراتے ہوئے دیکھا ہم نے پولیس کو توجہہ مرکوز کرنے کیلئے آواز لگائی۔مگر حملہ آور کے ہم لوگوں پر گولی چلانے تک پولیس نے کوئی مداخلت نہیں کی تھی“۔

فائرینگ کے بعد مذکورہ طلبہ نے مظاہرین کے ارگرد انسانی زنجیر بناکر پولیس بریکٹس کی طرف بڑھے۔یہاں تک کہ طلبہ ہاتھوں میں لاٹھیاں لئے سادہ لباس میں موجود پولیس جوانوں کو بھی قریب آنے نہیں دیا۔

ایک اسٹوڈنٹ احتجاجی نے کہاکہ ”ہم جانتے ہیں کچھ لوگ تشدد کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ہم انہیں ایسا کرنے نہیں دیں گے“