جاني دشمن كے ساتھاچھا سلوک کرنااخلاق عظیمہ کا اعلی نمونہ

   

تاریخ شاہد ہے کہ روئے زمین پر اسلام کی طرح وسیع النظر، امن پسند اور باہمی رواداری کا علمبردار کوئی مذہب ظاہر نہیں ہوا۔ وہ زندگی کے ہر موڑ اور ہر راستے پر پیار و محبت اور عفو و درگزر کی تعلیم دیتا ہے، لیکن ان دنوں دشمنان اسلام کے اعتراضات بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ اس پر باطل اور من گھڑت الزامات تراشنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ وہ اسلام پر تشدد، خونریزی، بنیاد پرستی اور عدم رواداری کا الزام لگاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑدیا، جب کہ اسلام اور دہشت گردی کے درمیان تضاد اور تناقض اظہر من الشمس ہے۔ دین اسلام پر کئے گئے اعتراض کا جواب ہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے شواہد اور اسلام کی عظیم تاریخ چند واقعات سے دیں گے، جس سے ظاہر ہو جائے گا کہ اسلام ہی ساری دنیا میں امن و امان، رواداری اور وسعت نظری کا حامل واحد مذہب ہے۔
نبی پاک ﷺ پر مکہ مکرمہ میں ظلم و ستم کی انتہاء کی گئی، آپ ﷺ کی شان اقدس میں نازیبا کلمات ادا کئے گئے۔ آپ ﷺ کو کبھی مجنون، کبھی ساحر اور کبھی کاہن کہا گیا، یہاں تک کہ آپﷺ کو قتل کرنے کی سازش رچی گئی۔ آپ ﷺ کے متبعین کو نت نئی تکلیفیں دی گئیں، جنگ احد میں شہداء کا مثلہ کیا گیا، ان کی شکل و صورت اور شناخت کو بگاڑ دیا گیا، دن بہ دن ظلم و ستم میں اضافہ ہونے لگا۔ بعض صحابہ نے آپﷺ سے دشمنوں کے حق میں بددعا کرنے کی درخواست کی، لیکن آپﷺ نے فرمایا: ’’میں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں، لعنت کرنے والا نہیں‘‘۔
فتح مکہ کے موقع پر سرکار دوعالم ﷺ نے صرف عفو و درگزر پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ مشرکین کو تالیف قلوب کے لئے ہوازن کے مالِ غنیمت میں سے قابل لحاظ حصہ عطا فرمایا۔ جنگ احد میں شریک مشرک قائدین کو عام معافی عطا فرمائی، بلکہ ارشاد فرمایا: ’’جو ابوسفیانؓ کے گھر میں داخل ہو وہ محفوظ ہے‘‘۔ یہ ایک مثال ان لوگوں کی تھی، جنھوں نے آپﷺ پر ظلم و ستم کے طوفان ڈھائے اور آپﷺ نے ان پر اقتدار اور کامل قدرت ہونے کے باوجود معاف فرمادیا۔
اسی طرح کا معاملہ آپﷺ منافقین کے ساتھ بھی فرمایا کرتے، چنانچہ عبد اللہ ابی جو منافقین کا قائد تھا، ہمیشہ نبی پاک ﷺاور صحابہ کرام کے ساتھ دشمنی رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مال غنیمت کی حرص و ہوس میں صحابہ کرام کے ساتھ چلا اور اپنی قوم کے بعض آدمیوں سے کہنے لگا: ’’تم نے یہ سب اپنے ہاتھوں سے کیا، انھیں اپنے شہر میں جگہ دی اور اپنے مال و متاع میں اپنا شریک بنایا۔ بخدا! اگر تم ان سے اپنا ہاتھ روک لو تو وہ ضرور دوسرے کسی ملک کو چلے جائیں گے‘‘۔ اس نے نبی اکرم ﷺ کی شان عالی میں بے ادبی کی۔ سرکار دوعالم ﷺکو اس بات کی اطلاع دی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے ساتھ موجود تھے، سنتے ہی جلال میں آئے اور عرض کیا: ’’آپ بلال کو اس کے قتل کا حکم فرمائیں‘‘۔ آپﷺ نے کچھ توقف فرمایا، پھر ارشاد فرمایا: ’’کیسے ہوگا اے عمر! لوگ جب گفتگو کریں گے تو کہیں گے کہ محمد (ﷺ) اپنے مصاحبین کو قتل کرتے ہیں‘‘۔ آپﷺ صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہوئے، اثناء راہ ان آیتوں کا نزول ہوا۔ ترجمہ: ’’یہی وہ لوگ ہیں، جو کہتے ہیں کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺکے پاس سے ہیں، یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمینوں کے خزانے ہیں، لیکن منافق نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ لوٹیں گے تو ضرور وہاں سے عزت دار، ذلیل کو نکال دے گا، جب کہ عزت اللہ اور اس کے رسول کے لئے اور مؤمنین کے لئے ہی ہے، لیکن منافقین نہیں جانتے‘‘۔
(سورۃ المنافقون۔۷،۸)
ان آیات کے نزول کے بعد لوگ سمجھ گئے کہ آپﷺ عبداللہ بن ابی کو قتل کرنے کا حکم فرمائیں گے۔ عبد اللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبد اللہ سچے اور جاں نثار صحابی تھے، حاضر خدمت ہوکر عرض کیا: ’’یارسول اللہ! مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ نے میرے والد عبداللہ بن ابی کو قتل کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ قبیلہ خزرج میں کوئی شخص مجھ سے زیادہ اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا نہیں ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ اگر آپ عبد اللہ بن ابی کے قتل کے لئے میرے علاوہ کسی اور کو حکم دیں گے تو میں اپنے والد کے قاتل کو زمین پر چلتا ہوا نہیں دیکھ سکوں گا اور ایک مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل کردوں گا اور خود جہنم رسید ہو جاؤں گا۔ اس لئے عبد اللہ بن ابی کے قتل کے لئے آپ صرف مجھے ہی حکم فرمائیں، میرے علاوہ کسی دوسرے کو اس کا حکم نہ دیں‘‘۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کی نفسیاتی کیفیت کو ملاحظہ فرمایا کہ ان میں ایمان کی صداقت اور والد کے ساتھ حسن سلوک کے جذبات بھڑک رہے ہیں۔ ارشاد فرمایا: ’’ہم انھیں قتل نہیں کریں گے، ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں گے اور جب تک وہ زندہ رہیں گے ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں گے‘‘۔
سیرت النبی ﷺ میں اس جیسے کئی واقعات ملتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کا معاملہ فرمایا۔ دشمن کی اذیتوں کو برداشت کرنا اور صبر کا مظاہرہ کرنا قابل تقلید پہلو ہے، لیکن اس سے بڑھ کر قابل صد تحسین اقدام یہ ہے کہ جب جانی دشمن زیر نگیں ہو جائے اور قبضہ و تصرف میں آجائے، اس وقت اس کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرنا، ایذا رسانیوں، ناپاک سازشوں اور منصوبوں کو فراموش کرکے اس کو معافی کا پروانہ عطا کرنا، حضور نبی اکرم ﷺکے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ کردار ہیں، جو زندگی کے ہر موڑ پر ہماری رہنمائی و رہبری کرتے ہیں۔