ججس پر عتاب

   

روئے نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
ججس پر عتاب
ججس صاحبان پر مودی حکومت کا عتاب ہندوستان میں عدل و انصاف کا گلہ گھونٹنے کی ایک گھناونی ترکیب ہے ۔ دہلی فسادات پر قابو پانے میں دہلی پولیس کی مجرمانہ غفلت کا نوٹ لیتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلیدھر نے پولیس کی سرزنش کی تو ان کا تبادلہ کردیا گیا ۔ مرکزی حکومت ملک کے دستور ، جمہوری اداروں اور قانون کے تحفظ کرنے والے اداروں کے تقدس کو پامال کرنا ، عدالتوں کو اپنے اشاروں پر کام کرنے کے لیے مجبور کرنا جیسا نا پسندیدہ عمل تیزی سے کرتے جارہی ہے ۔ ہندوستانی نظام عدلیہ کی توہین کرتے ہوئے جسٹس ایس مرلیدھر کو ان کے عہدہ سے ہٹا کر انہیں پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ تبادلہ کردیا ۔ تبادلے کے فیصلہ کے خلاف عدلیہ کی صفوں میں غم و غصہ پیدا ہوا ہے ۔ دہلی ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کالجیم کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کیا اور ملک کے بہترین ججس میں شامل جج مرلیدھر کے ساتھ زیادتیوں کی مذمت کی ۔ اس طرح مودی حکومت عدالتوں کے تقدس کو اپنے پیروں تلے پامال کررہی ہے ۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس نے مودی حکومت کی اس من مانی کا سخت نوٹ لیتے ہوئے احتجاج کیا ۔ عدلیہ کی ادارہ جاتی یکجہتی اور انفرادی ججس کے ساتھ روا رکھے گئے رویہ پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں ۔ مودی حکومت کا رویہ ان لفظوں کے مطابق درست ہے کہ ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی ، چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ، ہمیں تو عبث بدنام کیا ۔ یہ حکومت عوام کا خط اعتماد حاصل کر کے ہندوستانی خواتین ، دستوری اقدار ، جمہوری اصولوں اور سماجی ذمہ داریوں کے مغائر کام کرنے لگی ہے ۔ گذشتہ 70 سال میں جو نہیں ہوا وہ اب ملک میں ہورہا ہے ۔ اہل قانون یا اہل دانش اس حکومت کے خلاف کچھ بھی کہیں اس پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے ۔ اس حکومت نے ملک میں عوام پر نفسیات کا بدترین حملہ کرنے کے ساتھ معاشیات اور اخلاقیات کے کتنے ہی گورکھ دھندے کھڑے کئے ہیں ۔ دہلی فساد پر قابو پانے میں ناکام پولیس اور نفرت انگیز تقاریر کرنے والے بی جے پی قائدین کے خلاف ایک شکایت پر شکایت کنندہ کے خلاف ہی کارروائی کی جائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی کہاوت پر عمل ہورہا ہے ۔ پولیس شہریوں کی جان کا تحفظ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ، حکومت شہریوں کو راحت دینے کے فرض سے فرار ہوچکی ہے ۔ حکومت نے جس جج کو پولیس کی سرزنش کرنے کی سزا دیتے ہوئے تبادلہ کیا ہے اس جج کے کیرئیر پر نظر ڈالتے ہوئے دیکھا جائے تو جسٹس مرلیدھر نے اپنے قانون کی پریکٹس کے ابتدائی دنوں میں بحیثیت وکیل عوام اور مجبور فریادوں کی داد رسانی میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ مجبوروں اور غریبوں کو انصاف دلانے عدلیہ میں مدلل بحث کے ذریعہ خاطیوں کو سزا دلوانے میں ان کی وکالت کی ستائش کی جاچکی ہے ۔ بھوپال گیس المیہ میں متاثرین جو انصاف دلانے میں انہوں نے کلیدی رول ادا کیا تھا ۔ سپریم کورٹ میں انہوں نے بھوپال گیاس کیس کی موثر پیروی کی تھی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی بے قصور افراد کو اپنی سخت محنت اور قابلیت کے ذریعہ انصاف دلایا تھا ۔ اس جج کے ساتھ آج دہلی ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کھڑا ہے لیکن مودی حکومت نے بار اسوسی ایشن کی بھی پرواہ نہیں کی ہے ۔ ہر فرد واحد کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے انہوں نے اپنا مضبوط موقف اختیار کرتے ہوئے انصاف حاصل کیا ہے ۔ بہر حال جسٹس مرلیدھر بھی ان تمام ججس کی طرح حکومت کے عتاب کا شکار ہوئے ہیں جنہوں نے حکومتوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا اور حکومتوں کے تلوے چاٹنے والے ججس کی صف میں کھڑے رہنے سے انکار کیا ۔ اس سے قبل جج لویا کو بھی سہراب الدین شیخ فرضی انکاونٹر کیس کے سلسلہ میں اذیت دی جاچکی ہے ۔ ان کی موت یکم دسمبر 2014 کو ہوئی لیکن ان کی موت قانون دانوں کی نظر میں مشکوک ہے ۔ جج لویا کی بہن نے اپنے بھائی کی موت کے تعلق سے شبہات کا اظہار کیا تھا ۔ بہر حال ہندوستان کے عدلیہ و قانون کے اقدار کو پامال کرنے کے واقعات افسوسناک ہیں ۔ اور حکومت یا بالادستی رکھنے والی طاقتیں ایک خطرناک کھیل کھیل رہی ہیں جس کا انجام بھیانک ہوسکتا ہے ۔۔