جدوجہد آزادی میں مولانا محمدعلی جوہر کاحصہ

   

پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کی خلافت عثمانیہ کی تائید میں ہندوستانیوں کی جانب سے ہندوستانی انگریزی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے 1919 ء میں ایک تحریک کا آغاز ہوا جسے ’’خلافت مومنٹ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں بھی باوجود ایک مذہبی تحریک ہونے کے خلافت مومنٹ نے اہم حصہ ادا کیا۔ 1920 ء کی لندن کانفرنس کے موقع پر اس تحریک کو کافی اہمیت حاصل ہوئی تھی ۔ مولانا محمدعلی جوہر نے خلافت مومنٹ میں راست حصہ لیا اور انگریزوں کے غضب کی وجہ سے انہیں چار سال جیل میں گذارنا پڑا ۔ مولانا جوہر کے ہمنواؤں میں ان کے بھائی شوکت علی ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری ، بیرسٹر جان ،محمد جونیجو، حسرت موہانی ، شیخ شوکت علی صدیقی، سید عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر حکیم اجمل خان جیسی نامور شخصیتیں شامل تھیں ۔ ان سب سے مل کر ’’آل انڈیا خلافت کمیٹی‘‘ قائم کی ۔ اس تنظیم کا مرکز شہر لکھنؤ کو بنایا گیا اور صدر دفتر نواب شوکت علی صدیقی کے مکان کے احاطہ میں قائم کیا گیا ۔ کمیٹی کے قیام کا اہم مقصد مسلمانوں میں سیاسی اتحاد برائے تحفظ خلافت تھا ۔ 1920 ء میں خلافت کمیٹی کا منشور شائع کیا گیا جس میں انگریز حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ خلافت کا تحفظ کرے ۔ تمام ہندوستانی مسلمانوں سے بھی اس منشور کے ذریعہ اپیل کی گئی کہ وہ خلافت تحریک سے جڑ جائیں اور انگریزی حکومت کو خلافت عثمانیہ کے بچاؤ کیلئے آگے آنے کی ترغیب دیں۔ جدوجہد آزادی میں خلافت قائدین کی مدد سے مہاتما گاندھی کو ہندو مسلم اتحاد کو منظم کرنے میں آسانی ہوئی اور تحریک آزادی میں اس ہندو مسلم اتحاد کی وجہ سے کافی جوش پیدا ہوگیا گاندھی جی، مولانا محمد علی کو کافی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انہیں مسلمانوں کا ایک اہم قاید تسلیم کرتے تھے ۔ مولانا علی جوہر کی ایما ء پر ڈاکٹر انصاری ، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خان جیسے اہم مسلمان قائدین گاندھی جی کے قریبی حلقہ میں شامل ہوگئے ۔ اور ان تمام کی کوششوں سے ہندوستانی مسلمان جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ انہی قائدین نے ملکر 1920 ء میں مسلمانوں کیلئے ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘‘ کا قیام عمل میں لایا تاکہ مسلمانوں میں تعلیمی اور سماجی بدلاؤ آسکے علی برادران کی سارے ملک میں اس قدر مقبولیت بڑھ چکی تھی کہ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں بھی دیہاتی عورتیں چکی پیستے وقت علی برادران کی تعریف میں یہ گیت گاتی تھیں جس کا مکھڑا تھا ’’بولی اماں محمد علی کی ۔ جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘۔
پھر کچھ ہی دنوں میں کانگریس خلافت جوڑی نظر بد کا شکار ہوگئی مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیموں نے خلافت کمیٹی کی مخالفت شروع کردی ۔ ہندو مذہبی اور سیاسی قائدین نے خلافت تحریک کو اسلامی بنیاد پرستی ٹھہرایا اور اس کی کھل کر مخالفت شروع کردی ۔ دوسری جانب کئی مسلم قائدین نے بھی انڈین نیشنل کانگریس میں بنیاد پرستی کے اضافہ کو محسوس کرنا شروع کردیا اور اس طرح کانگریس خلافت اتحاد میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ ان وجوہات کی روشنی میں علی برادران بھی گاندھی جی اور کانگریس سے دوری اختیار کرنے لگے ۔ علی برادران گاندھی جی کی عدم تشدد کی پالیسی سے بھی ناراض نظر آنے لگے ۔ اس افراتفری میں مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ۔ ایک حصہ کانگریس کے ساتھ دوسرا خلافت تحریک کے ساتھ اور باقی مسلمان مسلم لیگ کیساتھ جڑ گئے ۔
خلافت تحریک نے جو ایک بہت ہی کم مدت تک کارکرد رہی ہندوستانی جدوجہد آزادی میں ایک اہم حصہ ادا کیا ۔ کانگریس سے مسلمانوں کو قریب کرنے میں معاون رہی اور انڈین نیشنل کانگریس کو مولانا آزاد ، ڈاکٹر انصاری اور حکیم اجمل خان جیسے نامور مسلم قائدین کا اثاثہ دیا جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو تحریک آزادی سے جوڑے رکھا اور آزادی کے بعد بھی آزاد ہندوستان کا مسلمانوں کو ایک اہم ستون ٹھہرایا۔ خلافت کمیٹی کے اصل روح رواں مولانا محمد علی جوہر جنہیں موجودہ نسل فراموش کرچکی ہے ۔ ایک عظیم قائد، دانشور، صحافی ،شاعر اور بہترین صلاحیتوں کے حامل تھے ۔ آپ 10 دسمبر 1878 ء کو پیدا ہوئے اور 4 جنوری 1931 ء انتقال فرماگئے ۔انڈین نیشنل کانگریس کے آپ چھٹویں مسلمان صدر تھے ۔ آل انڈین مسلم لیگ کے بانیوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے آپ اس جماعت کے صدر کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ اس طرح یہ ایک وقت دو مختلف نظریات کی سیاست جماعتوں کی صدارت کے منصب پر فائز رہنے کا اعزاز مولانا محمد علی جو ہر کو حاصل ہے ۔
آپ ایک بہترین قلمکار اور شعلہ بیان مقرر تھے ۔ صحافتی میدان میں آپ نے اردو ہفتہ وار ’’ہمدرد ‘‘ اور انگلش اخبار‘‘ کامریڈ‘‘ جاری کیا ۔ آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ مسلم لیگ سے ابتداء ہی سے منسلک رہے ۔ مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس منعقدہ 1906 ء میں آپ شریک تھے اور 1918 ء میں آپ نے بحیثیت صدر اس تنظیم کی خدمت انجام دی ۔ 1923 ء میں آپ نے انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کی ذمہ داری سنبھالی ۔
آپ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ نے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دوران تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں ہمارا ملک چاہئے ۔ میں یہاں سے آزادی کے پروانہ کے ساتھ لوٹوں گا یا یہیں پر مرجاؤں گا ‘‘۔ مولانا کا یہ قول صحیح ثابت ہوا اور آپ نے وہیں اپنی آخری سانس لی ۔ آج کی نوجوان ہندوستانی نسل کو سوائے مہاتماگاندھی ، پنڈت نہرو اور بھگت سنگھ کے کوئی دوسرا مجاہد آزادی یاد ہی نہیں جو ہم سب کیلئے ایک لمحہ فکر ہے۔٭