جرمنی میں مسلمانوں پر ’عبادت ٹیکس‘ سے نئی بحث چھڑ گئی

,

   

برلن میں ایک مسجدکے بانی کا کہنا ہے کہ برادریوں کو اپنے مالی معاملات خود دیکھ لینے چاہیں جس طرح جرمنی کے یہودی‘ کتھولک اور پروٹیسٹنٹ عیسائی ٹیکس ادا کررہے ہیں۔

برلن۔ جرمنی میں مسلمانوں کو بھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح ’ عبادت ٹیکس‘ ادا کرنے کے حوالے سے نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے دارلحکومت برلن میں ایک مسجد کے بانی ملک کے تمام مسلمانوں کو عبادت ٹیکس ادا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ برداریوں کو اپنے مالی معاملات خود دیکھ لینے چائیں جس طرح جرمنی کے یہودی ‘ کتھولک اور دیگر عیسائی ٹیکس ادا کررہے ہیں۔

کرسچن ڈیموکرٹیک سیاستداں تھورسٹن فرئی نے اس مطالنے کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ بیرونی امداد کی مزاحمت کرنی چاہئے۔

خیال رہے کہ جرمنی میں بڑی تعداد میں تعمیر ہونے والی مساجد کے لئے ترکی او رچند خلیجی ممالک سے مالی امداد دی جاتی ہے۔

جرمن اسلامک کونسل کے چیرمن کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں اس طرح کی مساجد ’مٹھی بھر‘ ہیں اور ان میں سے اکثر مساجد پہلے سے ہی اپنی مدد سے چل رہی ہیں۔ خیال رہے کہ جرمنی میںیہودی او رعیسائی عبادت ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ جس کو کمیونٹی کی مدد کے لئے استعمال کیاجاتاہے۔

یا د رہے کہ جرمن حکومت نے ملک میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کے رہنماؤں اور اما م مساجد سے رابطے شروع کردئے تھے اور 28نومبر2018کو اس حوالے سے ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی۔

جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ سیہفر نے ’جرمن اسلام کانفرنس‘ کے افتتاح کے بعد اپنے خطاب میں کہاتھا کہ جرمنی کے مسلمانوں سے رابطوں سے ان کے عقائد ‘اقدر او رروایات کے حوالے سے معاملات طئے کرنے میں آسانی پیدا ہوگی او رانہیں جرمن ثقافت او راقدار سے جورنے میںآسانی ہوگی۔

ان کا کہناتھا کہ اماموں کو جرمنی میں تربیت دینے او رمساجد کو بیرونی امداد سے روکنا دو اہم مقاصد ہیں۔