جرمنی کی روگے نوجوانوں کیلئے بہترین مثال

   

پروین کمال
عالمی تاریخ میں گزشتہ صدی اس حوالے سے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے کہ اس صدی میں انسان کی طبیعت نے اسے اس منزل تک پہنچا دیا جہاں عقل و شعور کی دائرے وسیع ہوتے ہیں۔ تجسس اور کھوج انتہائی عروج پر جاتی ہے۔ تب اس نے آسمانوں کی طرف سفر کرنے کا عزم اس منزل تک جانے کیلئے اسے کئی ایک مربوط راستوں سے گزرنا پڑا لیکن ارادے مضبوط ہوں تو منزلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ اس طرح ایک رسائی ممکن ہوئی لیکن یہ منزل آخری نہیں تھی۔ اس کیلئے مزید جدوجہد کی ضرورت تھی چنانچہ کئی ایک (مہم جو) ایک ہوئے، جنہوں نے چاند ستاروں تک پہنچنے اور کائناتی نظام کو سمجھنے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ تب کسی حد تک انہیں کامیاب ملی۔ دراصل دور حاضر میں سائنس کی نت نئی ایجادات کی بدولت نئے مشاہداتی علوم کو سمجھنا اور کائناتی نظام کی گہرائیوں کو جانچنا اتنا مشکل نہیں رہا۔ اس کے برعکس دور ماضی میں کچھ یوں تھا کہ لوگ غیب کی ہر شئے پر یقین کرلیتے تھے اور اس کو قدرتی نظام کا حصہ مانتے تھے۔ مگر آج وقت بدل گیا ہے۔ دنیا اب روایات کی اسیر نہیں رہی۔ عہد اور برس کی باتوں اور علوم پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ آج دنیا میں حصول علم کی بنیاد عقلی دلیلیں اور مشاہداتی تجربات ہیں۔ یقین اور ایمان کا مفہوم کائناتی اُمور کو عقل و شعور کے دائرے میں رکھنا اور تجرباتی میدان پر پرکھا گیا ہے۔ نئی تحقیقات اور نئے تجربات کی اساس پر بڑی بڑی مہمیں سر کی جارہی ہیں۔ غرض انسان کی کائناتی تحریکات کی شروعات کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔ اس کے لئے تاریخ کے اوراق اُلٹنے ہوں گے۔ بات غالباً 1961ء کی ہے جب ان تحریکات کی عملی طور پر شروع کیا گیا اور پھر 20 جولائی 1969ء کائناتی تاریخ کا وہ دن تھا جس کو دنیا کبھی بھلا نہیں سکتی جب ایک امریکن نژاد شخصیت ’’نیل آمسٹرانگ‘‘ نے چاند پر پہنچنے والے پہلے انسان کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ دنیا ششدر تھی کہ یہ ہزاروں میل بعد آسمان پر نظر آنے والا خوبصورت سا چاند ہے۔ وہاں تک آدم زاد کی رسائی کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ یہ تھی انسان کے معصوم سے دماغ کی سوچ لیکن جب سائنس نے ترقی کرلی تب سب کچھ ممکن ہوگیا۔ نئی تحقیقات، نئی معلومات، نئی راہیں، انسانی شعور، کی بیداری نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اب تو دنیا کا ہر انسان خلائے بسیط کے خواب دیکھ رہا ہے۔ وہاں سے نئی نئی معلومات سمیٹ لانے کا جوش بڑھتا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایک گروپ راست پرواز کرنے والے ’’اسپیس ایکس راکٹ‘‘ سفر کرتے ہوئے خلائے بسیط میں جا پہنچا۔ یہ ان کا نجی دورہ تھا جو صرف چار دن کا تھا، گویا خلا میں چہل قدمی کرنے کیلئے گئے تھے۔ جیسے کوئی اَڑوس پڑوس کے مقامات کی سیر کیلئے جاتا ہے۔ غرض یہ مشن یکم اپریل کو امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم ’’ناسا‘‘ کے کینیڈی اسپیس سنٹر سے خلا میں بھیجا گیا۔ اس مشن کی قیادت ایک چینی نژاد بزنس مین ’’جون وانگ‘‘ نے کی۔ ارب پتی وانگ خلائی سفر پر جانے کے خواہش مند تھے۔ اس مشن میں شریک ارکان کو انہوں نے آٹھ مہینوں تک تربیت دلوائی تاکہ دوران سفر وہ لوگ سخت ترین حالات سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہیں۔ جنگل بیابانوں میں رکھا گیا جہاں پانی کی ایک بوند بھی نہیں مل سکتی تھی۔ لیکن اپنا مقصد حاصل کرنے کے جوش میں وہ تمام آگے بڑھتے رہے اور ٹریننگ پوری کی۔ اس مہم میں شامل ارکان میں سے چار خلا بازوں کو قطبی مدار میں بھیجنے کیلئے چنا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر آج تک کسی نے سفر نہیں کیا۔ انسان کی خلائی پرواز کا سفر شروع ہوئے 64 سال ہوچکے ہیں۔ لیکن اس دورانیے میں آج تک قطبوں پر کسی نے سفر نہیں کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ خلا بازوں نے زمین کے دونوں قطبوں پر براہ راست سفر کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس مشن میں شامل ارکان ناروے، آسٹریلیا اور جرمنی سے ہیں۔ جرمنی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کوئی خاتون خلائی سفر پر گئی ہو۔ اس سال جرمنی کی پہلی خاتون خلا باز کا اعزاز Rabea Rogge نے حاصل کیا، جنہوں نے زمین کے قطبی خطوں کے اوپر پہلی بار براہ راست پرواز کی ہے جبکہ گزشتہ 64 سال کے عرصے میں یہ استعمال نہیں تھا۔ اس مشن کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہم ترین معلومات حاصل کرکے مشن کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ غرض زمین پر واپس آنے کے بعد اس گروپ نے کوئی طبی امداد نہیں لی۔ دراصل وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خلاء میں قیام کرنے کے بعد ان کی صحت، طاقت، اور صلاحیتوں میں کوئی کمی نہیں ہئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح سب کچھ انجام دے سکتے ہیں۔ اس طرح یہ مشن کامیاب رہا۔
جرمنی کی پہلی خلائی سفر پر جانے والی ’’رابیا روگے‘‘ جرمن نژاد ہیں۔ جرمنی کے صدر مقام ’’برلن‘‘ میں پیدا ہوئی ہیں ار اب عمر کی 30 منزلیں طئے کرچکی ہیں۔ تعلیمی حوالے سے وہ الیکٹریکل انجینئر، روبوٹک ریسرچر ہیں۔ اس کے علاوہ نجی طور پر ماہر فلکیات بھی ہیں۔ اتنی کم عمری میں انہوں نے اتنی ساری منزلیں سر کی ہیں، یہ انہی کا حصہ تھا۔ ایک بات جو انتہائی حیرت سے سنی جائے گی۔ ان کا خاندانی پس منظر ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ان حالات کے باوجود وہ زندگی کا سفر کامیابی کے ساتھ طئے کئے جارہی ہیں اور بلندی پر پہنچ چکی ہیں۔ جن کا کوئی رہنما نہیں، کسی کی گود، کسی کا کندھا انہیں نہیں ملا، پھر بھی انہوں نے اپنی زندگی خود سنواری ار آج اس مقام پر پہنچ گئی ہیں کہ جہاں دنیا کی نظریں نہیں پہنچ سکتیں۔ ’’روگے‘‘ نوجوانوں کیلئے ایک بہت بڑی بہترین مثال ہے۔