جشن رحمتہ للعالمینﷺ

   

عالم اسلام میں اس وقت ایک اضطرابی کیفیت ہے ۔ حضور اقدس ﷺ کی شان میں گستاخی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ اور بعض ملکوں کی کٹر پسندی ، اہانت آمیز ، دل آزار پالیسیوں نے مسلمانانِ عالم کو بے چین کردیا ہے ۔ فرانس ، یوروپی ممالک مغربی دنیا سے وابستہ لوگوں اور حکمرانوں نے اسلام دشمنی میں انسانیت بھی بھلا دی ہے ۔ حضور اکرم حضرت محمد ﷺ کی ولادت مبارک ساری دنیا اور ساری کائنات کے لیے باعث رحمت ہے ۔ رحمتہ للعالمین ؐ بناکر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا پر بڑی رحمت فرمائی ہے ۔ غیر مسلم دنیا پر بھی اللہ تعالیٰ نے کئی احسانات کئے ہیں ۔ حضرت پیغمبر اسلام ؐ کے بھی اس دنیا پر کافی احسانات ہیں ، لیکن اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں چند لوگ انسانیت کو فراموش کر کے اظہار خیال کی آزادی کے نام پر کسی بھی مقدس شخصیت کی شان میں گستاخی کرنا اور توہین کرنے کی عادت بنالی گئی ہے ۔ ان کی یہ حرکتیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں ۔ اس لیے جامعہ الازہر کے شیخ ڈاکٹر احمد الطبیب نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو فوجداری جرم قرار دیا جائے ۔ چند سربراہان مملکت اپنے عوام کے ساتھ زیادتیاں کررہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام خاص کر مسلمانوں کو نشانہ بنائے ہوئے اپنے اقتدار و حکومت کو بچانے کی کوشش میں اسلام کو بدنام اور حضرت پیغمبرؐ کی شان میں گستاخانہ خاکوں کو ہوا دے رہے ہیں ۔ شیخ الازہر کا مطالبہ درست وقت میں کیا گیا ہے ۔ اب عالمی برادری اور ذمہ دار اقوام کو آگے آکر اسلام دشمن طاقتوں کی سرکوبی کے لیے سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ فوجداری قوانین بنانے سے عالمی عدالت میں اسلام کے خاطیوں اور گستاخی کرنے والوں پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف کمر کس لی ہے ۔ ان کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خاں نے بھی فرانس کی حرکتوں کی مذمت کی اور پارلیمنٹ میں قرار دادیں بھی منظور کرلی گئیں ۔ سعودی عرب کی کابینہ نے فرانس کے صدر کے بیان اور اسلام کی توہین کرنے والے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے خود کو تمام اہم عنوانات سے دور رکھا ۔

خاص کر ساری دنیا کے مسلمانوں نے جب فرانس کی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی اور اس پر عمل کرنے کا مظاہرہ کیا لیکن سعودی عرب نے فرانس کی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرنے سے گریز کیا ۔ کئی ملکوں نے فرانس کے سفیر کی طلبی اور اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ فرانس سے تعلقات منقطع کرلیے جائیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام مسلم ممالک کے سربراہ فوری طور پر یکجا ہو کر فرانس اور اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کریں ۔ او آئی سی کا اجلاس طلب کرتے ہوئے سعودی عرب اور دیگر طاقتور اور با اثر مسلم حکمرانوں کو چند بدبختوں اور ناعاقبت اندیش حکمرانوں کو سبق سکھانے کے لیے کارروائی کرنے کا فیصلہ کرتے لیکن ترک صدر اور چند ایک مسلم ممالک کے سوا کسی نے ٹھوس قدم اٹھانے کی جانب توجہ نہیں دی ۔ صدر ترکی کے عزائم اور ان کے منصوبوں کو تقویت دینے کے لیے اگر عالم عرب سے لے کر مسلم دنیا اُٹھ کھڑی ہوجائے تو توہین رسالت ، توہین قرآن مجید اور مسلم دشمنی کے واقعات کا سدباب کرنے میں کامیابی ملتی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج ساری دنیا جشن میلاد النبیؐ منا رہی ہے مگر گستاخانہ حرکتوں کو ختم کرنے کے لیے یا چند ذہنی طور پر معذور حکمرانوں کے پاگل پن کا علاج کس طرح کیا جائے اس پر غور نہیں کیا جارہا ۔ مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ اب تک مسلمانوں نے سیرت النبیؐ کو عام کرنے کے لیے کیا کام کیا ہے ۔ جب کبھی گستاخانہ واقعات سامنے آتے ہیں مسلمان سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں۔ احتجاجوں ، مذمتوں اور قرار دادوں سے ہٹ کر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتے ۔ مسلمانوں کو شان رسالتؐ کی تعلیمات کو عام کرنے کے ساتھ اسوۂ حسنہ پر چلتے ہوئے دوسروں کو بھی بتانا ہوگا ، سمجھانا ہوگا ، پڑھانا ہوگا اور سنانا ہوگا کہ رحمتہ للعالمینﷺ کی حیات طیبہ کس طرح تھی اور مسلمان ان کی شان میں گستاخی کو ہرگز برداشت نہیں کرتے ۔۔