جموں و کشمیر میں ’عوام دوست اقدامات‘ کے مثبت نتائج : ڈھلون

   

مقامی نوجوانوں کو راہ راست پر لانے اور معمول کی زندگی گزارنے ’’آپریشن ماں‘‘ کی لانچنگ
سرینگر 21 فروری (سیاست ڈاٹ کام) ایک اعلیٰ سطحی فوجی آفیسر کے ایک اہم بیان کے مطابق جب سے وادی میں ’’آپریشن ماں‘‘ کی لانچنگ عمل میں آئی ہے ’’عوام دوست اقدامات‘‘ کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد سے مقامی نوجوانوں کے مختلف عسکریت پسند گروپس میں شمولیت کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ لیفٹننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون نے کشمیر کی اسٹراٹیجک XV کارپس کے سربراہ ہیں، نے ’’آپریشن ماں‘‘ کا آغاز کیا تھا جس کے ذریعہ انکاؤنٹر کے دوران گرفتار کئے گئے ایک دہشت گرد کو اس کی ماں سے بات چیت کروانے کے انتظامات کئے گئے تھے تاکہ اُسے معمول کی زندگی جینے کے لئے ترغیب دلائی جاسکے۔ اُنھوں نے کہاکہ اگر تمہاری ماں تمہارے گناہوں ؍ جرائم کو معاف کردیتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ زندگی میں آپ نے کچھ بھی نہیں کھویا۔ اُنھوں نے مزید کہاکہ ’’آپریشن ماں‘‘ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جن کا ہر کسی کو نوٹ لینا چاہئے۔ ہم اپنے ہر آپریشن کے دوران دہشت گردوں کو معمول کی زندگی کی جانب لوٹ آنے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں۔ انکاؤنٹر کو درمیان میں ہی روک دیا جاتا ہے اور دہشت گردوں کے والدین یا پھر سوسائٹی کے ذمہ داروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ دہشت گرد نوجوانوں کو سمجھا بجھاکر معمول کی زندگی کی جانب لوٹ آنے کی ترغیب دیں اور اپنے اس تجربہ میں کئی بار کامیاب رہے۔ بہرحال ان تمام حالات کے بارے میں فوج زیادہ انکشاف نہیں کرتی ہے کیوں کہ اس سے معمول کی زندگی پر واپس آنے والے عسکریت پسندوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ ہم دہشت گرد تنظیموں کی قیادت کے خلاف ’’دوستانہ اقدامات‘’ کے ذریعہ مؤثر کارروائیاں کررہے ہیں۔ سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے حال ہی میں مرتب کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق جب سے کشمیر کا خصوصی موقف دفعہ 370 منسوخ کیا گیا ہے تب سے عسکریت پسند گروپس میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد فی ماہ گھٹ کر پانچ ہوگئی ہے جبکہ 5 اگسٹ 2019 ء سے قبل یہی تعداد فی ماہ 14 نوجوانوں پر مشتمل تھی جو مختلف دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوجاتے تھے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال 5 اگسٹ کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کا خصوصی موقف دفعہ 370 منسوخ کرتے ہوئے اسے مرکز کے تحت دو علیحدہ علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کردیا تھا۔ جنرل ڈھلون نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ 5 اگسٹ 2019 ء سے قبل ہلاک شدہ دہشت گرد کے جلوس جنازہ میں ہزاروں افراد شرکت کیا کرتے تھے، کبھی کبھی تو یہ تعداد 10,000 سے بھی تجاوز کرجاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوتا بلکہ اُن کی تجہیز و تکفین میں اُن کے کچھ قریبی رشتہ دار ہی شامل ہوتے ہیں۔