جموں و کشمیر کو دفعہ 371 میںشامل کرنے کا مطالبہ

   

دفعہ 370 اور دفعہ 35A کے ساتھ کشمیر کیا تھا ؟۔ سب کچھ
دفعہ 370 اور دفعہ 35A کو حذف کرنے کے بعد اب کیا ہے ؟ کچھ نہیں
دفعہ 35A کے ساتھ وہ کیا چاہتا ہے ؟ کچھ

کیپٹن اے پانڈو رنگا ریڈی
جموں و کشمیر کے تعلق سے دستور کے دفعہ 370 کو حذف کرنا اور دفعہ 35A کو ختم کرنا نہ صرف ایک بزور طاقت کی گئی قوم پرستی ہے بلکہ اس سے حکومت کے دلیرانہ طرز عمل کی نفی بھی ہوتی ہے ۔ یہ اقدام خود قوم پرستی کیلئے مضر ہے ۔ دفعہ 370 در اصل دفعہ 35A سے مختلف ہے ۔ دفعہ 35A کو حذف کرتے ہوئے مودی اور امیت شاہ کی جوڑی جموںو کشمیر کی اراضیات خریدنے کیلئے رئیل اسٹیٹ تاجروں کی راہ ہموار کر رہی ہے ۔ چونکہ جموں و کشمیر کے عوام کی اکثریت معصوم اور سادہ لوح ہے اس لئے وہ دوسری ریاستوں سے آنے والے اراضی تاجروں کیلئے آسان شکار ہوسکتے ہیں۔ بہت کم وقت میں جموں و کشمیر کے عوام صرف لکڑی کاٹنے والے اور پانی بھرنے والے ہوکر رہ جائیں گے ۔ نام نہاد سرمایہ کار جو ہیں وہ انتہائی معمولی قیمتوں پر بینک قرضہ جات کی مدد سے ان اراضیات کو خریدیں گے اور اپنے ادارے قائم کرینگے ۔ اکثر و بیشتر وہ عوامی حصص جاری کرینگے اور پیسہ جمع کرینگے ۔ مقامی لوگ قلی ‘ باورچی ‘ چپراسی بنیں گے اور بہت زیادہ کچھ ہو تو کلرک بنیں گے ۔ کیا یہ ترقی ہے ؟
ترقی اتحاد ‘ سالمیت اور سکیوریٹی کے نام پر حکومت نے نہ صرف دفعہ 370 بلکہ دفعہ 35A کو بھی حذف کردیا ۔ اس طرح اچانک فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ مودی اور امیت شاہ کا یہ اصرار رہا ہے کہ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجہ میں کئی پناہ گزین پاکستان سے جموں و کشمیر کو منتقل ہوگئے تھے اور انہیں شہریت کے حقوق نہیں دئے گئے تھے ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر آسام میںشہریت کی جو مہم ہے وہ کیوں ہے ؟ ۔ کیا یہ فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم نہیں ہے ؟۔
اب چونکہ جموں و کشمیر ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے مرکزی حکومت وہاں ہندی مسلط کریگی ۔ یہ دعوی تو ضرور ہے کہ جموں و کشمیر کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کا مقصد علاقہ کو ترقی دینا ‘ امن ‘ خوشحالی اور استحکام بحال کرنا ہے تاہم اس کا اصل مقصد کشمیریوں کو ان کی اپنی ہی ریاست میں اقلیت میں لادینا ہے ۔ فی الحال دفعہ 371A کے ذریعہ ناگالینڈ میں ہر غیر مقامی فرد کے اراضی خریدنے پر پابندی ہے ۔ یہاں اراضیات صرف قبائلی عوام خرید سکتے ہیں جو ریاست کے مکین ہیں۔ یہاں تک کہ تلنگانہ کے لمباڑے اور چینچو قبائل کے لوگ اور دوسرے ایس ٹی طبقات بھی ناگالینڈ میں اراضیات نہیں خرید سکتے ۔ دفعہ 371F سکم کے خصوصی حقوق سے متعلق ہے ۔ وہاں سپریم کورٹ یا کوئی دوسری عدالت بھی کسی معاہدہ یا سمجھوتہ پر یا کسی تنازعہ پر کوئی دائرہ کار نہیں رکھتی ۔ اس کے علاوہ یہاں دوسرے لوگ اراضیات بھی نہیں خرید سکتے ۔ میزورم میں دفعہ 371G کے تحت دوسرے لوگ اراضیات نہیں خرید سکتے ۔
دفعہ 371E ہماچل پردیش : یہاں بھی غیر مقامی افراد اراضیات نہیں خرید سکتے ۔
یہی حال اروناچل پردیش اور میگھالیہ کا بھی ہے ۔
ایسے میں ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جموںو کشمیر کو دفعہ 371 کے تحت شامل کیا جائیگا ۔ روزگار ‘ مقامی تحفظ کے رول وغیرہ کو بھی یہاں لاگو کیا جانا چاہئے تاکہ یہاں کے نوجوانوں کو روزگار سے محرومی سے بچایا جاسکے ۔ خانگی اور عوامی شعبوں کی ملازمتوں میں بھی مقامی افراد کو ترجیح دی جانی چاہئے ۔ حکومت ہند نے عمدا جموںو کشمیر کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنایا ہے تاکہ وہاں دوسری ریاستوں کے نوجوان بھی درخواستیں داء کرتے ہوئے ملازمت حاصل کرسکیں۔ یہ ایک خطرناک چیز ہے ۔ ہم مودی ۔ شاہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام امتحانات میں کشمیری زبان کے پرچہ کو لازمی قرار دیں۔
جب کشمیر مرتا ہے تو کون جیتا ہے
جب کشمیر جیتا ہے تو کون مرتا ہے