جمہوریت پر مذہب ہوا حاوی …

   

روش کمار
ہمارے ملک میں چند برسوں سے جمہوریت کو جس طرح پامال کیا گیا اور مذہبی جنون پسندی کو جس انداز میں فروغ دیا جارہا ہے اسے دیکھے کر ایسا لگ رہا ہے کہ ہر سیاسی جماعت اب مذہبی جماعت میں تبدیل ہوچکی ہے یا تبدیل ہورہی ہے اور یہ سب کچھ مذہب کے نام پر مذہب کی آڑ میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے کیا جارہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا ہندوستان میں لوک تنتر ( جمہوریت ) کی جگہ دھرم تنتر ( مذہبیت ) نے لے لی ہے ؟ اس مذہبی جنون کے سامنے بھارت کی جمہوریت کی تصویر دھندلی ہوتی جارہی ہے بلکہ مذہبی جنون پسندی اس قدر حاوی ہوچکی ہے کہ اس کے بغیر آج کے بھارت میں آپ جمہوریت دیکھ نہیں سکتے ، مذہبی جنون پسندی کا مطلب ہی ایسا ہوگیا ہیکہ پارٹیاں مذہبی پروگرامس کرانے والی تنظیموں میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں پہلے مذہب سے یہ سیاسی جماعتیں دوری بنائے رکھتی تھی مگر اب یہ سیاسی جماعتیں سیاست سے ہی دوری بنانے لگی ہیں ، دولت کے دباؤ میں سیاسی جماعتوں کا سیاست ختم ہوئی اب مذہب کا نام لیکر جمہوریت کے میدان سے ہی سیاسی جماعتیں ختم ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے 22 جنوری کیلئے پروگرامس اور اسکیمات کا جال بچھا دیا تو عام آدمی پارٹی بھی اپنی جان لے کر مذہب کے تالاب میں کود گئی ہے اور یہ پوسٹر لیکر آگئی ۔ عام آدمی پارٹی الگ سیاست کے خواب لیکر آئی تھی مگر پارٹی اب مذہب کے اس نصاب کو ہڑپ لینا چاہتی ہے جسے لیکر بی جے پی اور سنگھ کے لوگ گھوم رہے ہیں ۔ ایک سیاسی جماعت میں الگ الگ مذہب اور عقائد کے مناننے والے لوگ ہوسکتے ہیں لیکن ایک پارٹی کی جانب سے مذہبی پروگرام کرانے کا کیا مطلب ہے ۔ دو سیاسی جماعتوں کے درمیان الگ الگ موضوعات و مسائل کو لیکر سیاسی حکمت عملی سمجھ میں آتی ہے مگر عام آدمی پارٹی نے جو کیا ہے اسے کرنے کیلئے اسے بی جے پی سے الگ کیوں ہونا چاہئے ۔ بی جے پی میں کیوں نہیں ہونا چاہئے کیا اس کے پاس الگ سیاسی زبان نہیں ہے جس سے وہ مذہب کی اس سیاست کا وہ مقابلہ کرسکے یا پھر صرف ایک مذہب کو لیکر ان کے خیالات و نظریات ایک ہیں ۔ ایک ہی دھرم کو لیکر سیکولر رہنے کی نوٹنکی بھی اب ختم ہوگئی ہے ۔ دوسرے مذہب کو کنارے کردیا گیا بلکہ یہ ان کیلئے شاندار موقع ہے کم از کم بھارت کی اس سیاست میں تبدیلی کا الزام اب ان پر نہیں آئے گا کوئی ہمیں کہے گا کہ افطار کا اہتمام یا مزار پر چادر چڑھانا مذہبی تبدیلی ہے اور اس کے ووٹ بنک کی وجہ بھارت میں اچھے کام نہیں ہورہے ہیں ۔ ہر کسی کو ہندو مذہب کا ایک ایسا وسیع و عریض میدان دکھائی دے رہا ہے جس میں گھس کر سب ہی اپنی اپنی کرکٹ ٹیم کیلئے پچ بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہ ہندو مذہب کی سیاسی تبدیلی نہیں ہے بلکہ سیاست کا ہندو کرن ( سیاست کو ہندو بنانا ) ہے تب ہی میں نے کہا کہ بھارت کی جمہوریت اب مذہبیت میں بدل گئی ہے ۔ یہاں مذہب کو لیکر اس طرح سے بحث چھڑگئی ہے کہ پہچانا مشکل ہوگیا ہے کہ مذہبی جماعتیں یا تنظیمیں سیاسی جماعت ہے یا مذہبی جماعت ، اب یہ خبر بڑے پیمانے پر بتائی جارہی ہے کہ روہنی مندر میں خصوصی یگنا میں اپنی شریک حیات کے ساتھ کجریوال نے شرکت کی ساتھ ہی اس کے ذریعہ یہ اطلاع دی جارہی ہیکہ دہلی میں ہر ماہ کے پہلے منگل کو عاپ، سندر کانٹ کا پاٹھ اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرائے گی ۔ پارٹی نے کہا ہیکہ عاپ کے سب ہی ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ سندر کانٹ کے پاٹھ کا اہتمام کروائیں گے یہ صاف نہیں کہ اس کا خرچ کون برداشت کرے گا ۔ پارٹی ، حکومت ، ارکان اسمبلی و ارکان پارلیمان یا عوام ، سندر کانٹ کا پاٹھ کروانا ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کروانا اب یہ سب سیاسی پروگرام بن گیا ہے ۔ عاپ کے ساتھ ساتھ بی جے پی اور سنگھ نے جس طرح سے ان پروگرامس کو شروع کیا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے یہ اچھا نہیں ہورہا ہے ۔ عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس سے سیاست کا مستقبل خراب ہورہا ہے اور جب سیاست کا مستقبل خراب ہوتاہے تو عوام کا مستقبل تاریکیوں میں ڈوب جاتا ہے ۔ سیاست تب ہی اچھی ہوتی ہے جب لیڈر ، لیڈر کی شکل میں آپ کے سامنے زیادہ سے زیادہ جوابدہ ہوتا ہے تب ہی وہ عوام کے سوالوں سے ڈرتا ہے لیکن لیڈر ، سنیاسی سادھو یا کسی دیوی دیوتا تپسوی کا روپ دھار کر ( شکل اختیار کر کے ) عوام کے درمیان جانے لگے تو عوام کو ہی لیڈر سے ڈرنا ہوگا ، لیڈر کو بہانہ مل جائے گا کہ انتظامیہ میں ناکام ہوگیا مگر وہ پوجا کو ٹھیک سے کررہا تھا اور کرواہی رہا تھا ۔ بھارت کی سیاست کبھی بھی اتنی دھندلی نظر نہیں آئی ۔ جمہوریت ، مذہبیت بن گئی ہے ۔ وزیراعظم کی دستوری سرگرمیاں جتنی ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ مذہبی سرگرمیاں نظر آتی ہیں ان کی زبان سیاسی تو ہے ہی سیاست کے ساتھ ساتھ مذہبی بھی ہوتی چلی گئی ہے ۔ وہ خود کے بارے میں اس زبان میں بات کرنے لگے ہیں کہ ایشور نے انہیں کس کام کیلئے منتخب کیا ہے ۔ وہ ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب میں صرف چند روز ہی باقی ہیں میری خوش نصیبی ہیکہ میں بھی اس کارخیر کا شاہد اور شریک ہوں گا پربھو نے مجھے افتتاحی تقریب کے دوران تمام بھارتی شہریوں کی نمائندگی کرنے کا موقع دیا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے میں گیارہ دن کا خصوصی برت رکھ رہا ہوں میں آپ سب ہی عوام سے آشیرواد کی امید رکھتا ہوں۔ مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ سیاسی لیڈروں کی سیاسی زبان بھی مذہبی ہوتی چلی جارہی ہے حالت یہ ہوگئی ہے کہ اب ہرکتھا واچک خود کو رکن پارلیمنٹ یا ہر رکن پارلیمنٹ خود کو کتھا واچک سمجھنے اور بنانے میں لگا ہوا ہے اور ہونے بھی لگ جائے گا ۔ گوگل سرچ سے پرانی خبروں کو نکال لایا ہوں ۔ انتخابات کے وقت وزیراعظم کو اوتار بنانے کا مقابلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ وشنو اوتار سے پہلے انہیں شیو کا اوتار بتایا جاچکا ہے ۔ کرشن کا اوتار بھی۔ یہ خبریں بتارہی ہیں کہ کس طرح بی جے پی کے ارکان اسمبلی ، ارکان پارلیمان اور حامی اور لیڈر وزیراعظم نریندر مودی کو شیو کا اوتار بتارہے تھے ۔ سال 2021 میں جب ہماچل میں بی جے پی کی حکومت تھی تب وہاں کے وزیر شہری ترقیات سریش بھردواج نے وزیراعظم کو شیو کا اوتار بتایا تھا ۔ 2022 میں راجستھان میں گزشتہ اسمبلی میں بی جے پی کے رکن گیا چند پاریکھ نے اسمبلی میں ہی کہدیا کہ مودی مہادیو کے اوتار ہیں ۔ ویسے بی جے پی کے کرپال پرمار نے اس وقت کے وزیراعلی جئے رام ٹھاکر کو ہی کرشن اوتار بتادیا ۔ ہماچل پردیش کی منڈی لوک سبھا سے رام روپ شرما ہیں جو وزیراعظم کو کرشن کا اوتار بتاچکے ہیں ۔ نائب صدر جمہوریہ نے وزیراعظم کو ’’ یودھ پرش ‘‘ کہا ہے ۔ مذہبی جنون میں آپ اپنا موقف ظاہر نہیں کرسکتے بلکہ آپ کو آپ کا موقف چن کر دے یا جاتا ہے ۔ اتنی محنت آپ کی بچ جاتی ہے ۔ یہی ہندو سُکھ ہے ، جنتا کا خادم راجہ اوتار کی شکل میں ڈھلتا جارہا ہے جس جمہوریت سکھ کیلئے بھارت نے 100 برسوں کی جدوجہد کی اسے دس سال میں ہی چھوڑ کر اسے ہندو سکھ سے جا ملادیا گیا ہے ۔ بی جے پی لیڈروں کو وزیراعظم راجہ لگتے ہیں وشنو کے اوتار لگتے ہیں بھارت میں مذہبی جنون کا دور دورہ ہے ۔ جمہوریت کھڑکی پر لٹک رہا ایک پردہ ہے ۔ کیا وزیراعظم بھی یہی چاہتے ہیں کہ انہیں ایک اوتار کی طرح پیش کیا جائے ؟ جمہوریت میں سیاسی لیڈر دوسرے سیاسی لیڈروں سے بہتر ہونے کا دعوی کرتا ہے بھگوان ہونے کاد عوی کرتا ہے۔