جمہوری عمل اور کشمیر یوں کی بے چینی

   

رام پنیانی
5 اگست 2019ء کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ اُس آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا گیا، جس کے ذریعہ کشمیر کو خصوصی موقف، اختیارات حاصل تھے۔ دستور کی دفعہ 370 دراصل ہندوستان میں کشمیر کے انضمام کی بنیاد تھی اور اس آرٹیکل نے سوائے دفاع ، مواصلات، کرنسی اور اُمور خارجہ کے تمام اُمور میں خود اختیاری دی تھی، لیکن نریندر مودی حکومت نے دستور کی دفعہ اس کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کے تمام جمہوری حقوق معطل کرکے رکھ دیئے۔ جیسے ہی آرٹیکل 370 منسوخ کردیا گیا، ریاست میں انٹرنیٹ خدمات بھی معطل کردی گئیں۔ اس طرح ایک طویل مدت تک عملاً کشمیر ،ملک کے دیگر حصوں سے کٹ کر رہ گیا۔
وادیٔ کشمیر میں زبردست احتجاج کیا گیا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کشمیریوں کا وہ احتجاج عالمی برادری یا دنیا کی نظر میں نہیں آیا۔ وادی میں کثیر تعداد میں فوج کی موجودگی اور پھر اس کی سرگرمی میں شدت کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے اہم سیاسی قائدین کی گرفتاریوں یا پھر انہیں گھر پر نظر بند کئے جانے پر بھی عالمی سطح پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بہرحال آرٹیکل 370 منسوخ کردیا گیا، کشمیریوں کے جمہوری حقوق چھین لئے گئے، اہم سیاسی قائدین کو گرفتار کیا گیا یا نظربند کردیا گیا۔ ان حالات میں جموں و کشمیر کو اس کا ریاست کا درجہ گھٹاکر مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں شامل کرلیا گیا اور وادی کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کیا گیا۔ لیفٹننٹ گورنر، مرکزی حکومت کے بجائے علاقہ کی نگرانی اور انتظام و انصرام ایڈمنسٹریٹر کے حوالے کردیا گیا۔ جمہوریت مکمل طور پر معطل کردی گئی اور ان تمام اقدامات کے تقریباً دیڑھ سال بعد اب 24 جون 2021ء کو وزیراعظم نریندر مودی نے سابق ریاست کے اہم قائدین کو مدعو کیا جن میں چار سابق وزیراعلیٰ بھی موجود تھے۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے بتایا جاتا ہے کہ دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم اس ریاست کے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کے بارے میں بات کی۔ یہ حد بندی مستقبل قریب میں انتخابات منعقد کروانے کے مقصد سے کی جارہی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے جن کشمیری قائدین کو بات چیت کیلئے مدعو کیا، اُن لوگوں نے ریاست کا درجہ بحال کرنے کے موضوع پر بات کی، لیکن مودی یا امیت شاہ نے اس سلسلے میں کوئی واضح تیقن نہیں دیا اور نہ وعدہ کیا۔ ہنوز یہ ایک معمہ بنا ہوا کہ آخر اس مرحلے پر مودی نے کشمیری قائدین کا اجلاس کیوں طلب کیا؟ اگرچہ کشمیری قائدین نے ریاست کا درجہ بحال کرنے پر بہت زور دیا لیکن مودی ۔ شاہ دونوں نے اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگرچہ ان قائدین میں سے صرف محبوبہ مفتی نے آرٹیکل 370 کی بحالی اور پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں بات کی لیکن ان کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ کشمیری عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے، خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دستور کے دائرہ میں رہ کر ریفرنڈم کروانے سے متعلق پنڈت جواہر لعل نہرو کے وعدوں کا اب بھی حوالہ دیا جاتا تھا۔ پی وی نرسمہا راؤ نے بھی اس جانب قدم بڑھایا اور بے شمار وعدے کئے، دوسری طرف واجپائی نے انسانیت، جمہوریت، کشمیریت کے اصولوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا وعدہ کیا لیکن تمام کے تمام وعدے وفا نہیں کئے گئے۔ اب حال یہ ہوگیا کہ کشمیر سے ریاست کا درجہ ہی چھین لیا گیا اور دستور ہند کے مغائر اقدامات کرتے ہوئے کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا گیا، حالانکہ یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 370 صرف اور صرف کشمیر اسمبلی کی سفارشات کی بنیاد پر منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ مختصراً یہ کہ مسئلہ کشمیر سے سب سے زیادہ جو لوگ متاثر ہوئے ہیں، وہ کشمیری عوام ہیں۔ کشمیری پنڈتوں کو وادی میں انتہا پسندی کے نتیجہ میں راہ فرار اختیار کرنے پڑی اور پھر پنڈتوں کے کشمیر چھوڑنے جیسے واقعہ کو کشمیریت سے جوڑنے کے بجائے القاعدہ جیسے عناصر سے جوڑ کر اسے ’’جہاد‘‘ کا نام دیا گیا، اور اس طرح کشمیر کے دشمن عناصر نے صورتحال کا ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ یہ بات بھی پھیلا دی گئی کہ کشمیریت کے بجائے جہاد کے نام پر انتہا پسند نے کشمیر میں داخل ہوکر پنڈتوں کو نشانہ بنایا۔ بے یارومددگار ہندو اقلیت کو سکیورٹی فراہم کرنے کے بجائے جگموہن نے ریاست میں ہراساں و پریشان کی گئی کمیونٹی کو حمل و نقل کی سہولت فراہم کی۔ سب یہ تو کہتے ہیں کہ بے شمار کشمیری پنڈتوں نے کشمیر چھوڑ کر ہندوستان کے دوسرے مقامات پر پناہ لی ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد نے وادی کشمیر کو چھوڑ دیا، اس کے وجہ بڑھتی انتہا پسندی اور فوج کی کثیر تعداد میں تعیناتی تھی، کیونکہ انتہا پسندی میں اضافہ کے ساتھ ہی حکومت ہند نے کشمیر میں فوج کی تعداد میں اضافہ کرنا شروع کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیری عوام کی حالت ِزار کیلئے سامراجی طاقتوں خاص امریکہ نے پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ جہاں تک امریکہ، برطانیہ کی وادیٔ کشمیر سے دلچسپی کا سوال ہے، دفاعی لحاظ سے کشمیر کا جغرافیائی محل و قوع بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ نے وادیٔ کشمیر میں انتہا پسندی کیلئے پاکستان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان وادی میں انتہا پسندی کی حمایت کرے اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ القاعدہ جیسی تنظیموں کے داخلے نے صورتحال کو مزید ابتر کردیا۔ لوگوں میں عدم اطمینانی کی جو کیفیت پائی جاتی تھی، اس نے سنگباری کی شکل اختیار کرلی۔ کشمیر میں نوجوانوں کی جانب سے ہندوستانی فوج پر سنگباری کے واقعات عوام کی برہمی اور ان کے غصہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کشمیر کی جو موجودہ صورتحال ہے اور مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو جس انداز میں برخاست کیا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکمراں وادی میں مذہبی بنیاد پر آبادی کی تقسیم عمل میں لارہے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے عزائم نے کشمیری عوام کی حالت کو بد سے بدتر کردیا اور دوسری طرف ہندوستان میں فرقہ پرستوں نے مسئلہ کشمیر کا معاشرہ کو تقسیم کرنے کیلئے استعمال کیا۔ ان فرقہ پرستوں نے نہرو پر مسائل پیدا کرنے کے الزامات عائد کئے اور یہ پروپگنڈہ کیا کہ سردار پٹیل اس مسئلہ کو بہ آسانی حل کرلیتے لیکن نہرو نے مداخلت کی۔ یہی جھوٹ اور پروپگنڈہ فرقہ پرستوں کی طاقت رہی ہے۔ اس طویل کہانی کو مختصر بیان کرتے ہوئے اویناش موہنتی لکھتے ہیں کہ 1947ء کے کشمیر تنازعہ اور اس ریاست کی تقسیم کے تین خاطی ہیں۔ ایک تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن ، دوسرے محمد علی جناح گورنر جنرل آف پاکستان اور مہاراجہ ہری سنگھ۔ اس کے برعکس کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرنے کے معاملے میں فیصلہ کن رول ادا کرنے والے تین بلند قامت قائدین میں شیخ عبداللہ، جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل شامل تھے۔ پٹیل نے اس حقیقت کو جانا کہ جغرافیائی لحاظ سے حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اسی لئے وہ کشمیر کے ہندوستان میں انضمام پر اصرار نہیں کررہے تھے۔ اسی طرح 18 اور 23 جون کے درمیان کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا کہ اگر کشمیر ، پاکستان میں ضم ہوتا ہے تو ہندوستانی حکومت اسے غیردوستانہ تصور نہیں کرے گی۔ وی پی مینن کے مطابق ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا تھا کہ انہوں نے اس معاملے میں خود سردار پٹیل سے تیقن حاصل کیا ہے۔
فی الوقت سوشیل میڈیا پر یہ پروپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ پنڈت نہرو نے جموں کی بہ نسبت کم آبادی کے باوجود وادی کشمیر کو زیادہ اسمبلی نشستیں الاٹ کیں، یہ بالکل غلط ہے۔ 2011ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر کی آبادی 68.88 لاکھ تھی اور جموں کی آبادی 53.79 لاکھ تھی۔ نقشہ سازی اور علاقہ کے معاملے میں جو پیمانے مقرر کئے گئے ہیں، وہ سچ ہیں۔ اس بات کا پورا امکان ہے کہ اسمبلی حلقوں کی حد بندی کے نتیجہ میں جموں کو زیادہ نشستیں دی جائیں گی۔ امریکہ کی زیر حمایت پاکستان نے ہمیشہ کشمیر میں استصواب عامہ کروانے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن ایک اور معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی خواہش کے مطابق کشمیر میں استصواب عامہ نہیں کروایا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے دخل اندازی اور جارحانہ موقف ختم کرنے سے انکار کردیا ہے ، دوسری طرف ہمارے ملک میں یہ پروپگنڈہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو علیحدگی پسند قرار دیا جارہا ہے۔ ہمارا میڈیا اور تنظیمیں بھی کشمیری مسلمانوں پر علیحدگی پسندی کا لیبل چسپاں کردیتے ہیں۔ اس طرح فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کشمیری ، پروپگنڈہ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
اب مودی دل کی دُوری کی بات کررہے ہیں ، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بندوق کے ذریعہ کشمیریوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ کیا پیار ، محبت و ہمدردی کے ذریعہ کشمیریوں اور حکومت کے درمیان پائے جانے والے فاصلے کو کم نہیں کیا جاسکتا؟ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ معاشرہ کو تقسیم کرنے کیلئے کشمیری پنڈتوں کی حالت زار کو بھی خلط ملط کردیا گیا اور جو حکومت پچھلے سات برسوں سے اقتدار پر فائز ہے، اس نے پنڈتوں سے ہمدردی کے دعوے کئے، کیا اس نے ان کی حالت ِ زار میں بہتری لائی۔ اس سے پہلے بھی بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے نے 6 سال تک حکومت کی۔ کیا اُس حکومت نے بھی کشمیری پنڈتوں کا خیال رکھا۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔