جواہرلال نہرو یونیورسٹی کا نام تبدیل کرسکتے ہیں مگر اس کا نظریہ تبدیل نہیں کیاجاسکتا

,

   

نئی دہلی۔ ایک روز قبل بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہنس راج نے تجویز پیش کی تھی کہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کانام تبدیل کرتے ہوئے کو مودی یونیورسٹی کردینا چاہئے‘ جس پر سیاسی حدبندی سے بالاتر ہوکر طلبہ کے گروپ نے اس بیان پر اعتراض جتایاہے۔

وہیں بائیں بازو کے تائیدی جے این یو ایس یو کے صدر نے طنزیہ طور پر ریمارک کی حمایت کرتے ہوئے وہ نام تبدیل کرنا چاہتے توکریں مگر طلبہ کو سہولتیں فراہم کریں‘ اے بی وی پی نے اس سارے معاملے کو سے خود کو دوررکھنے کی کوشش میں کہاکہ مذکورہ ریمارکس ایم پی کا اپنا تبصرہ ہے۔

ہنس دراصل اے بی وی پی کے زیر اہتمام منعقدہ ”ایک شام شہیدوں کے نام“ عنوان پرمنعقدہ پروگرام سے مخاطب تھے۔

جے این یو ایس یو کے صدر این سائی بالاجی نے کہاکہ ”اگر وہ حقیقت میں جے این یو کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے وہ لائبریریز کو کتابیں فراہم کریں‘ اسکالرشپ دیں‘

رومس اور پڑھائی کے لئے بچوں کوجگہ فراہم کریں‘ وہ تمام سہولتیں فراہم کریں جس کا انہوں نے وعدہ کیاہے۔

اگر تبدیلی یونیورسٹی کی بہتری میں ہوتی ہے تو ہمیں کوئی مسلئے نہیں ہے۔

کانگریس کی طلبہ تنظیم این ایس یو ائی نے ہنس کے تبصرے کو ”قابل مذمت“ قراردیا۔

مکیش کمار صدر این ایس یو ائی جے این یو یونٹ نے کہاکہ ”بی جے پی پہلے سے ہی اترپردیش میں اس طرح کی مشق کرچکی ہے۔ آلہ آباد کا نام پریاگ راج کردیاگیا ہے۔

لیکن ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ کچھ انتظامی تبدیلیاں اور پابندیاں سے ذہنیت اور نظریات بھی بدل جاتے ہیں“۔

انہوں نے مزید کہاکہ یونیورسٹی کا قیام سابق وزیراعظم جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی نے قیام کی تعلیم جوملک کے اداروں میں تعلیمی روشنی کی کمی کے پیش نظر کیاگیا کام ہے۔

انہوں نے دعوی کیاکہ آج کی تاریخ میں بھی جے این یو ہندوستان کے اداروں میں سب سے سرفہرست ادارہ ہے جہاں پر طلبہ اورپروفیسر حکومت سے سیاسی موضوعات پر سوال پوچھتے ہیں اوراسی وجہہ سے وہ اس آواز کوہمیشہ کے لئے بند کرنے کی کوشش کررہے ہیں“۔

اس کے علاوہ انہوں نے اے بی وی پی اس طرح کا پروگرام کرنے پر تنقید کانشانہ بنایا۔

تاہم اے بی وی پی کے جے این یو یونٹ کے صدر درگیش کمار نے کہاکہ ہنس نے وضاحت کردی ہے کہ انہوں نے ”مزاحیہ انداز“ میں با ت کہی تھی