جو مجھ سے دشمنی کھل کر نبھائے

,

   

مودی بمقابلہ راہول … ہزاروں کروڑ کا خرچ
یکساں سیول کوڈ … چھوٹے چمچے میدان میں

رشیدالدین
’’راہول نام تو سنا ہوگا‘‘ بالی ووڈ بادشاہ کی فلم دل تو پاگل ہے کا یہ مشہور ڈائیلاگ نریندر مودی اور بی جے پی کا تعاقب کر رہا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مودی اور بی جے پی قائدین کو نیند میں یہ ڈائیلاگ سنائی دے رہا ہے ۔ ملک اور بیرون ملک نریندر مودی کا امیج بنانے کیلئے کروڑہا اربوں روپئے خرچ کرنے کے باوجود راہول گاندھی سوشیل میڈیا کی ٹرینڈنگ میں آگے ہیں۔ راہول گاندھی جنہیں سیاسی تجربہ کی کمی کے سبب اپوزیشن نے کئی القابات سے نوازا۔ آج وہ آزمائش کی بھٹی سے گزر کر کندن بن چکے ہیں۔ راہول گاندھی نے گزشتہ ایک سال میں عوام کے درمیان اپنی امیج کو اس تیزی سے بہتر بنایا کہ تیسری مرتبہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کا نریندر مودی کا خواب ادھورا دکھائی دے رہا ہے جس کے ساتھ نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی سیاسی وراثت ہو ، اس کا سیاسی میدان کے بے تاج بادشاہ کے طور پر ابھرنا کوئی عجب نہیں۔ کنیا کماری سے کشمیر تک بھارت جوڑو یاترا نے راہول گاندھی کو حقیقی ہندوستان سے روبرو ہونے کا موقع فراہم کیا اور وہ عوام کی من کی بات کو سننے اور سمجھنے میں کامیاب رہے۔ گودی میڈیا کے بلیک آؤٹ کے باوجود عوام میں راہول گاندھی کی شہرت کی رفتار کو روکا نہیں جاسکا۔ بھارت جوڑو یاترا نے راہول کو سیاست کے گر سکھادیئے اور عوام کے درمیان بار بار پہنچ جانا ان کا معمول بن گیا ۔ کانگریس قائد کی بڑھتی مقبولیت اور قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد کی مساعی نے مودی اور بی جے پی کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ سیاسی طور پر کمزور کرنے اور کانگریس کیڈر کے حوصلے پست کرنے کیلئے عدالت کی سزا کی آڑ میں لوک سبھا کی رکنیت ختم کردی گئی ۔ اتنا ہی نہیں سرکاری بنگلہ کا تخلیہ کرایا گیا۔ سیاسی انتقامی کارروائی کا مقصد کچھ اور تھا لیکن یہ سزا اور کارروائی راہول کے لئے انعام ثابت ہوئی اور ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود افراد کا عوام میں مقبول ہونا ضروری نہیں ہے۔ عوام کے درمیان رہنے والے کئی افراد کو ارکان پارلیمنٹ سے زیادہ پاپولر دیکھا گیا۔ جب سے راہول کا جادو چلنے لگا ، وہیں مودی میجک کا اثر زائل ہونے لگا۔ راہول کی عوامی مقبولیت سے یہ ثابت ہوگیا کہ میڈیا کی اہمیت بھی کم ہوچکی ہے۔ عوام گودی میڈیا کو جان چکے ہیں اور غیر جانبدار میڈیا کا فیصد کافی کم ہے۔ گودی میڈیا دن رات نریندر مودی کے بیرونی اور اندرونی ملک دوروں کو لائیو پیش کرتے ہوئے گن گان کر رہے ہیں لیکن زمانہ سوشیل میڈیا کا ہے۔ مودی کے چاٹوکار اینکرس نے امریکی پارلیمنٹ سے خطاب اور پھر آٹو گراف کو کارنامہ کے طور پر پیش کیا جبکہ وزیراعظم نے تحریری تقریر پڑھنے میں بھیانک بلنڈر کئے جس پر ہندوستان کو شرمندگی ہوئی۔ اگر یہی غلطی راہول گاندھی سے ہوتی تو ہندوستان کی بے عزتی کا رونا روتے۔ جہاں تک آٹوگراف کا معاملہ ہے جو بھی سربراہان مملکت خطاب کرتے ہیں ، ان کی تحریری تقریر ارکان میں تقسیم کی جاتی ہے اور اس پر دستخط حاصل کرنے کی روایت ہے ۔ سرکاری اور گودی میڈیا کی ان دیکھی کے باوجود عوام کی نظریں راہول گاندھی پر ہیں۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی کی جانب سے کروڑہا روپئے خرچ کرنے کے باوجود مودی کے حق میں ماحول نہیں بن پارہا ہے ۔ دراصل عوام کے درمیان رہتے ہوئے راہول نے ماحول تبدیل کردیا۔ ہر دوسرے دن راہول گاندھی عوام بالخصوص غریبوں کے درمیان دکھائی دے رہے ہیں۔ گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے سزا برقرار رکھنے کے دوسرے دن راہول گاندھی سونی پت کے کھیتوں میں کسانوں کے ساتھ دکھائی دیئے ۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ رخ خان کی فلم کا ڈائیلاگ بی جے پی قائدین کے کانوں میں گونج رہا ہے ۔ راہول نام بی جے پی اور سنگھ پریوار کو کھٹکنے لگا ہے اور یہی نام مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ جس راہول کو امول بے بی ، پپو ، راہول بابا اور شہزادہ کہہ کر مخاطب کیا گیا ، آج وہی بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔ بی جے پی اور مودی کو اقتدار خطرہ میں دکھائی دے رہا ہے ۔ راہول کی مقبولیت میں پرینکا گاندھی کا اہم رول ہے جو ’’نئی اندراماں‘‘ کے نام سے غریبوں کے دل میں جگہ بناچکی ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مودی۔امیت شاہ جوڑی کو شکست دینے کیلئے راہول ۔پرینکا جوڑی کافی ہے۔ بی جے پی کی جانب سے مودی پبلسٹی خرچ کا کوئی گوشوارا جاری نہیں کیا گیا لیکن مرکزی حکومت نے 2014 ء سے ڈسمبر 2022 ء تک 6451 کروڑ اشتہارات پر خرچ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اس اعتبار سے مودی پبلسٹی پر ماہانہ 62 کروڑ اور روزانہ 2 کروڑ خرچ کئے گئے ۔ ماہانہ 62 کروڑ کے حساب سے ڈسمبر 2022 ء اور جولائی 2023 ء کے درمیان مزید 434 کروڑ خرچ کئے گئے ہوں گے۔ اس طرح مجموعی طور پر 7000 کروڑ مودی امیج بنانے پر خرچ ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے راہول گاندھی عوام کے درمیان نریندر مودی سے زیادہ مقبول اور سرخیوں میں ہیں۔ یہ تو رہی بات سرکاری خرچ کی۔ بی جے پی اور اس کے تائیدی صنعتی گھرانوں نے راہول گاندھی کے امیج کو بگاڑنے کیلئے ہزاروں کروڑ خرچ کئے۔ ملک کے تمام اہم اور بڑے ٹی وی چیانلس اور اخبارات کو خرید لیا گیا ۔ ہزاروں کروڑ کا یہ خرچ بی جے پی کیلئے کس حد تک فائدہ مند ثابت ہوگا اس کا اندازہ چار ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں ہوگا۔
ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاریوں کے دوران ایک طرف لاء کمیشن کی جانب سے حکومت کو رپورٹ کی پیشکشی کا انتظار ہے تو دوسری طرف بی جے پی کے چھوٹے چمچے میدان میں اتر آئے ہیں تاکہ یکساں سیول کوڈ کے حق میں ماحول کو سازگار کیا جاسکے۔ روزانہ گودی میڈیا پر یکساں سیول کوڈ کی تائید میں مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔ اسلام اور دین بیزار نام نہاد مسلم دانشوروں کو ٹی وی چیانلس پر پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کا ترقی پسند طبقہ یکساں سیول کوڈ کے حق میں ہیں۔ ایک ٹی وی چیانل نے فرضی سروے پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مسلم خواتین کی اکثریت نے یکساں سیول کوڈ کی تائید کی ہے ۔ اس طرح کے سروے اور ٹی وی مباحث کا مقصد مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا ہے تاکہ وہ مزاحمت اور احتجاج سے گریز کریں ۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لئے مذہبی بنیادوں پر عوام کو تقسیم کرنے کیلئے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یکساں سیول کوڈ سے نقصان صرف مسلمانوں کا ہوگا۔ حالانکہ ہندو اور دیگر مذاہب بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ 2018 ء میں لاء کمیشن نے یکساں سیول کوڈ کے خلاف اپنی رائے دی تھی لیکن اس مرتبہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمیشن حکومت کی جانب سے پہلے سے تیار کردہ رپورٹ حوالے کردے گا۔ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ اگرچہ قومی سطح پر ہوگا لیکن بی جے پی برسر اقتدار ریاستوں کے بعض چیف منسٹرس اوور ایکشن کرتے ہوئے مودی کی نظر میں خود کو وفادار کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے ریاست میں یکساں سیول کوڈ کا مسودہ تیار کرلیا ہے تو دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کے لئے شہرت رکھنے والے چیف منسٹر ہیمنت بسوا شرما نے کثرت ازدواج پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے لیکن نادانوں کو کون سمجھائے کہ ایک سے زائد بیوی رکھنے کے معاملہ میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو آبادی ہے۔ قومی سروے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ کثرت ازدواج کا رجحان مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں پایا گیا ہے اور شادی کے بغیر ازدواجی تعلقات میں بھی ہندو آگے ہیں۔ اگر کثرت ازدواج پر پابندی کا قانون نافذ ہوا تو آسام میں مسلمانوں سے زیادہ مخالفت ہندو کریں گے ۔ بی جے پی برسر اقتدار ریاستوں سے یکساں سیول کوڈ کے حق میں رائے حاصل کی جارہی ہے ۔ بی جے پی ریاستوں سے لو جہاد اور تبدیلی مذہب پر پابندی قوانین کے ذریعہ مسلمانووں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کھل کر مسلمانوں اور کانگریس کے خلاف میدان میں آچکے لیکن فیصلہ تو عوام کو کرنا ہے۔ موجودہ صورتحال پر پروفیسر انور جلال پوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
جو مجھ سے دشمنی کھل کر نبھائے
مجھے وہ آدمی اچھا لگے ہے