جگن موہن ریڈی کی حکومت کا ایک سال

   

امر دیولا پلی
گزشتہ ایک سال میں آندھرا پردیش میں حکمرانی کا ایک نیا ماڈل تیار ہو رہا ہے۔ اسے بلاشبہ حکمرانی کا ایک منفرد ماڈل کہا جاسکتا ہے جو عام آدمی کی حالت زار سدھارنے کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے۔ یہ ایسا ماڈل ہے جو ذات پات مذہب اور جماعتی تعصب سے پاک ہے۔
غیر معمولی بہتر حکمرانی کا یہ ماڈل ماہرین اقتصادیات، دانشوران قوم، بزرگ سائنسدانوں اور سیاستدانوں یا اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں (بیوروکریٹس) کے ساتھ مسلسل اجلاسوں کے اہتمام کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ شہری اور دیہی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں عام لوگوں کے تجربات اور ان سے حاصل کردہ ان پٹس Input کی بنیاد ہے جو ایک نوجوان سیاستدان نے متعارف کروایا اس نوجوان سیاستداں نے انتہائی مشکلات سے پرسفر کیا اور آندھرا پردیش کے طول و عرض میں پیدل سفر کرکے عام لوگوں کو درپیش مشکلات کا بچشم خود جائزہ لیا۔ ان سے بات کی ان کے ساتھ وقت گذارا غریب کو اپنے سینے سے لگایا ان کے خیالات کی بڑے صبر و تحمل اور سکون کے ساتھ سماعت کی۔
جگن موہن ریڈی نے 2009 میں سیاسی میدان میں اس وقت قدم رکھا جب وہ اپنے والد اور اس وقت کے چیف منسٹر آنجہانی ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی رہنمائی میں پارلیمانی حلقہ کڑپہ سے منتخب ہوئے۔ اُسی سال اپنے والد کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں المناک موت کے بعد جگن موہن ریڈی کو کانگریس ہائی کمان سے بہت تکلیف پہنچی اور سونیا گاندھی راہول گاندھی سے اختلافات کے بعد انہوں نے کانگریس کو خیرباد کہہ دیا۔ اس معاملہ میں کئی ایک مقامی لیڈروں کا کردار بہت ہی خراب رہا۔ ان لوگوں کی حرکات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جب جگن کے پاس کوئی امکان باقی نہیں رہا اور پارٹی قائدین کی جانب سے کانگریس پارٹی کو چھوڑنے کے لئے دباؤ پڑھنے لگا تب جگن موہن ریڈی نے سال 2010 میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کا آغاز کیا۔
ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی فضائی حادثہ میں موت پر متحدہ آندھرا پردیش میں ان کے چاہنے والے کئی لوگوں نے خودکشی کرلی تھی کئی لوگ صدمہ کے مارے حرکت قلب بند ہو جانے سے فوت ہوگئے تھے چنانچہ انہوں نے اپنے آنجہانی والد کے حامیوں کو پرسہ دینے اور مہلوکین کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کے لئے ’’ودارپویاترا‘‘ شروع کی۔ 2014 کے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں مرکز کی کانگریسی حکومت نے آندھرا پردیش کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا اور حیدرآباد تلنگانہ کو الاٹ کیا گیا جبکہ آندھرا پردیش کے لئے کوئی دارالحکومت نہیں چھوڑا گیا اس پس منظر میں جگن کی پارٹی نے پہلے ریاستی اسمبلی اور عام انتخابات کا سامنا کیا اور اپنے آنجہانی والد کے شروع کردہ تمام یہودی اسکیمات پر عمل آوری کا وعدہ کیا۔ ان انتخابات میں معمولی مارجن سے جگن موہن ریڈی کی زیر قیادت YSR CP کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً ایک فیصد ووٹ کی کمی سے جگن کی پارٹی ناکام ہوئی۔ اسے 67 اسمبلی نشستوں پر کامیابی ملی جبکہ ٹی ڈی پی نے YSRCP سے صرف 5 لاکھ ووٹ زائد حاصل کرتے ہوئے 102 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس وقت سیاسی تجزیہ نگاروں کا احساس تھا کہ جگن اپنے مخالفین کی شروع کردہ زہریلی اور مکارانہ مہم کا شکار ہوئے جن کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد جو جگن اور ان کی پارٹی کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے تھے آخری لمحہ میں اپنا ارادہ تبدیل کیا۔ اس ناکامی سے جگن مایوس نہیں ہوئے بلکہ پورے جوش و خروش کے ساتھ کسانوں، پسماندہ طبقات اور غریبوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے اسمبلی اور اسمبلی کے باہر آواز اٹھائی۔ انہیں دونوں ایوانوں میں فحش کلامی کرنے والے حکمراں پارٹی کے ارکان کا سامنا کرنا پڑا۔ YSRCP کے ارکان کو بنا کسی اشتعال کے بار بار معطل کیا گیا اور اس کی ایک رکن آر کے روجا کو ایک سال کے لئے معطل کیا گیا۔ یہاں تک کہ حکمراں پارٹی نے وائی ایس آر سی پی کے 23 ارکان اسمبلی کا انحراف کروایا ان میں سے چار کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔ اسپیکر نے بھی حکمراں جماعت کے قائدین کی ایماء پر قانون انسداد انحراف کے تحت ان کے کیس پر کارروائی کرنے سے انکار کیا نتیجہ میں YSRCP نے نومبر 2017 سے اسمبلی کے سرمائی اجلاس سے ہی پوری میعاد کے لئے ایوان کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔
جگن موہن ریڈی نے عوام کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے والد آنجہانی ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی طرح یاتراوں کا سلسلہ جاری رکھا اور اس کے ایک حصہ کے طور پر 13 اضلاع کا جو 125 اسمبلی حلقوں کا احاطہ کرتے ہیں ’’پرجا سنکلپ یاترا‘‘ کے ذریعہ احاطہ کیا اور پیدل چلتے رہے۔ 14 ماہ تک انہوں نے 3648 کیلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ اس یاترا کے دوران جگن موہن ریڈی نے دو کروڑ لوگوں سے ملاقات کی۔ 124 عوامی حلقوں سے خطاب کیا۔ اس دوران انہیں لاکھوں کی تعداد میں یادداشتیں موصول ہوئیں جس میں عوام نے ان کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کیا۔
جگن نے طلبہ کے کنونشن بھی منعقد کئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2019 کے عام انتخابات میں جگن فونکس بن کر ابھرے اور جملہ 50 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ 175 اسمبلی نشستوں میں سے 151 پر کامیابی حاصل کی اسی طرح 25 لوک سبھا حلقوں میں سے 22 پر ان کی پارٹی کو کامیابی ملی۔ جگن کی حکومت بوڑھوں، جوانوں، مزدوروں، خواتین اور نوجوانوں کے ساتھ سے ساتھ معذورین و بیماروں کے لئے بے شمار اسکیمات شروع کی جس سے عوام مسلسل مستفید ہو رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران عوام بہت خوش ہیں۔