جھارکھنڈ پولیس نے صحافی روپیش کمار سنگھ کو کیاگرفتار

,

   

پچھلے سال سنگھ کانام ان 40صحافیوں کے ساتھ منظرعام پر آیاتھا جن کے فون نمبرات پیگاسیس جاسوسی سافٹ ویر کی زد میں آنے والوں میں شامل تھے۔ جھارکھنڈ نژاد فری لانس ہندی صحافی روپیش کمار سنگھ کو بتایاجارہا ہے کہ پولیس نے گرفتار کرلیاہے۔

ذرائع کے بموجب سنگھ کے گھر پر اتوار کی اولین ساعتوں میں دھاوا بھی کیاگیاتھا اور یہ دھاوے دوپہر 2بجے تک جاری رہا ہے۔

سنگھ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ کس طرح گریدھا ضلع میں فیکٹریوں کی وجہہ سے قریب کے دیہاتوں میں صحت کے بحران برپا ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک 11سالہ لڑکی کی خراب صحت پر مشتمل ایک ویڈیو بھی پوسٹ کیاتھا جس کو چیف منسٹر آسام ہیمنت بسواس کوٹیاگ کرتے ہوئے مدد کی گوہار لگائی تھی۔

جولائی 17اتوار کے روز سریکیلا کھرسوان پولیس عہدیداروں نے بتایاجارہا ہے کہ صبح5:30ان کے گھر کادروازہ کھٹکھٹایا اور گھر کی تلاشی کی مانگ کی تھی۔حالانکہ سنگھ کی پولیس حراست میں تصویریں ٹوئٹر پر گشت کررہی تھی اس وقت سیاست ڈاٹ کام نے سپریڈنٹ آف پولیس سے رابطہ کیاتو انہوں نے ایسی خبروں سے انکار کردیا

روپیش کمار کون ہے؟۔
روپیش کمار سنگھ جھارکھنڈ نژاد ایک فری لانس صحافی ہے۔ انہوں نے بہت ساری مسائل پر رپورٹ کیاہے جس میں سے کچھ ایک ریاست میں قبائیلی کمیونٹی کی متاثر کن صورتحال پر مشتمل ہیں۔

پچھلے سال سنگھ کانام ان 40صحافیوں کے ساتھ منظرعام پر آیاتھا جن کے فون نمبرات پیگاسیس جاسوسی سافٹ ویر کی زد میں آنے والوں میں شامل تھے۔مذکورہ سافٹ ویر کو ایک اسرائیلی کمپنی نے بنایا ہے جس کا دعوی ہے کہ اس نے صرف حکومتوں کو یہ فروخت کیاہے۔

تفصیلات کے انکشاف میں سنگھ کے تین فون نمبر س موجود تھے۔ انکشاف سے قبل سنگھ نے سنٹرل ریزور پولیس فورسس 2017کے تحت آنے والے ایک خصوصی یونٹ کمانڈو بٹالین برائے ریسولیوٹ ایکشن اور کوبرا کے ہاتھوں ایک قبائیلی شخص جس کا نام موتی لال باسکی تھا کے ایک فرضی انکاونٹرکے متعلق خبر دی تھی۔

جب سنگھ نے اس قتل کی تحقیقات کی تو انہیں پتہ چلا کہ بناسکی سی آر پی ایف کے دعوؤں کے مطابق ایک ماؤسٹ گوریلا نہیں تھا بلکہ پرشانت پہاڑی تک یاتریوں کو جسمانی طور پر پہنچانے کام کرتا تھا۔


سنگھ کی یہ رپورٹ دی وائیر میں شائع ہوئی تھی اور اسی سال میں اس رپورٹ کوقبائیلی طبقات کی جانب سے بہت بڑی حمایت بھی ملی تھی۔ اسکے علاوہ اس معاملے کوجھارکھنڈ اسمبلی میں منتخب عوامی نمائندوں نے بھی اٹھایاتھا۔ اسکورل ڈاٹ ان کو دی گئی ایک انٹرویو میں سنگھ نے اس بات کو تسلیم کیاتھا کہ رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد سے انہیں ایک حربے کی شروعات کا احساس ہوگیاتھا۔

انہوں نے کہاکہ”اگر میں کسی کو بتاؤں کہ میں رپورٹ کرنے کے لئے ایک مقام پر پہنچارہاہوں‘ پھر کچھ لوگ مجھے سے پوچھتے ہیں کہ میں کیاکررہاہوں“۔انہوں نے دعوی کیاکہ میں جب بھی کوئی فون کال اٹھاتاہوں کہ ایک عجیب سے بیپ کی آواز آتی ہے۔

مذکورہ انٹرویو میں انہوں کہاتھا کہ ”میں نے اپنے فون کا استعمال بہت ہی کم کردیاتھا کیونکہ جھارکھنڈ میں ماؤسٹوں کے نام پر بہت ساری فرضی گرفتاریاں شروع ہوگئی تھیں“۔سال2019جون میں سنگھ پر بہار پولیس نے سخت یو اے پی اے قانون کے تحت ایک مقدمہ مبینہ دھماکو مادہ رکھنے کے الزام کے تحت درج کیاتھا۔ ان کا دعوی تھا کہ سنگھ ماؤسٹو ں کے لئے کام کرتا ہے۔

سنگھ کو ضلع گیا کے شیر گاٹی جیل میں قید کردیاگیاتھا اور آخر کار انہیں 2019ڈسمبر کو ضمانت ملی تھی۔سال2021میں اسرائیل کی سرخ راساس پیگاسیس کی جانب سے نگرانی کے لئے ان کے نمبر کا انکشاف ہونے کے بعد سنگھ نے دی وائیر سے بات کی جہاں پر انہوں نے کہاکہ حیران نہیں ہیں مگر رازادی پر ہونے والے حملے کی وجہہ سے وہ یقینا ناراض ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”آپ کسی کی رازادی پر کیسے حملہ کرسکتے ہیں؟موجودہ نظام میں ہمارے برسراقتدار حکمرانوں نے بنیادی طور سے جمہوریت پر قبضہ کررکھا ہے۔ جمہوریت پر قبضہ کرنے کے لئے یہ پہلا قدم ہے۔

مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کی موجودہ صورتحال صحافت کے لئے ایک غیراعلانیہ ایمرجنسی ہے“۔انہوں نے کہاکہ ”ایک شخص اپنے بیڈ روم میں کیا کررہا ہے اور کون کیابات کررہے ہیں سب تلاش کیاجارہا ہے۔

میرے جیسے صحافیوں کو خاموش بیٹھانے کے لئے‘ وہ ہمارے گھر والوں کے فونس بھی ٹیپ کررہے ہیں‘ جس کا ہمارے کام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے“۔