جہیز کی تباہ کاریاں

   

مولانا محمد عبدالحکیم لقمان القاسمی

امت مسلمہ کی معاشرتی خرابیوں میں سب سے بڑھ کر شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والے غیر شرعی رسوم و رواج اور فضول خرچیاں ہیں، جس کے تعلق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے، جس میں مال کم سے کم خرچ ہو‘‘۔ دورِ حاضر کی شادیوں میں اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کیا جا رہا ہے، حتی کہ سودی قرض کی نوبت آجاتی ہے، جو وقتی نام و نمود اور شان و شوکت کے سواء کچھ نہیں ہے۔ بسا اوقات یہ غرض بھی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ شکایات کے انبار حصے میں آتے ہیں۔ فتاویٰ عالمگیری میں فقیہ ابن نجیم کے حوالے سے اور فتاویٰ قاضی خان میں بھی اسی طرح منقول ہے۔
لڑکی والوں سے جہیز اور رقم کا مطالبہ کرنا (بھیک مانگنا) ہندوانہ رسم ہے۔ ناس ہو اس رسم کا کہ لڑکی والے لڑکی بھی دیں اور مال و جہیز بھی دیں۔ ہم مسلمان اللہ و رسولﷺ کے احکام و طریقہ چھوڑکر غیروں کا طریقہ اپنائیں اور پھر مسلمان ہونے کا دعویٰ کریں۔ غیر مسلموں میں یہ رسم و رواج اس لئے ہے کہ ان کے ہاں قانونِ وراثت نہیں ہے، یعنی لڑکی کو ماں باپ کی جائداد سے حصہ نہیں ملتا، جب کہ اسلام میں قانونِ وراثت موجود ہے۔ گیارہویں صدی کے مشہور عالم دین علامہ رجب علی نے بہت صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ یہ رشوت ہی ہے کہ لڑکی کا سرپرست اس کے نکاح سے پہلے لڑکے سے کچھ (رقم) لے، خواہ مانگ کر لے یا وہ اس بناء پر دے کہ اگر نہ دے گا تو لڑکی کا سرپرست اس سے نکاح کرنے پر راضی نہ ہوگا۔ جب لڑکے سے مطالبہ حرام ہے تو لڑکی سے مطالبہ کرنا بدرجۂ اولیٰ حرام ہوگا۔ مطالبہ پر ملنے والی رقم رشوت ہوگی، جس کا لینا اور واسطہ بننا (بات چیت میں) سب کا سب حرام ہے۔ از روئے حدیث ایسے سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے مستحق ہوتے ہیں‘‘۔ فتاویٰ عالمگیری میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔
آج جہیز و مال (جوڑے کی رقم) متعین کرتے ہیں، اسی طرح دعوتیوں کی تعداد اور لوازمات کا تعین ہوتا ہے۔ ان تمام مطالبات کو مان لیا جائے تو بات پکی اور نکاح ہوگا، ورنہ نہیں۔ جب ازروئے حدیث ان لوگوں پر لعنت برس رہی ہوتی ہے، تو پھر کیسے دونوں خاندانوں کی آئندہ زندگی میں سکون و برکت آئے گی؟۔ چنانچہ آئے دن نت نئی بیماریاں، بے برکتی، بہو اور سسرال والوں میں ناچاقی، اَن بَن (لڑائی جھگڑے) اور بار بار کی تو تو میں میں یہ رنگ لاتی ہے کہ لڑکے کے والدین ضعیفی میں اولڈ ایج ہوم میں یا تنہاء بے کسی و بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
الغرض یہ وہی والدین ہیں، جنھوں نے شرعی احکام کو چھوڑکر اپنی من مانی کی تھی۔ ’’النکاح من سنتی‘‘ کا رقعہ چھاپ کر، غیروں کی رسم و رواج کے عاشق بنے تھے۔ یہ وہی والدین ہیں، جو وقتی واہ واہ، شان و شوکت اور بھیک کے مال کے نشے میں چور تھے، لیکن آج بے بسی اور بے کسی کے دن گزار رہے ہیں، کیا یہ اسی لعنت کا اثر اور سزا نہیں ہے؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت اور بددُعا کام کر رہی ہو؟۔ اگر اس کام (نکاح) کو سنت کے مطابق انجام دیئے ہوتے تو دُنیا کی فانی زندگی میں بھی چین و سکون پاتے اور آخرت کی دائمی زندگی بھی بڑی راحت و آرام سے بسر ہوتی۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جہیز دیا تھا۔ حقیقت پر غور کیجئے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے اور آپﷺ ان کے سرپرست تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کہیں الگ مستقل سکونت نہیں تھی اور نہ گھر وغیرہ تھا۔ حضرت علی کا موقف یہ تھا کہ مہر کی ادائیگی اور گھر بسانے کا انتظام آپﷺ کو ہی کرنا تھا۔ چنانچہ آپﷺ نے حضرت علی سے پوچھا کہ ’’کچھ رقم (نقدی) وغیرہ ہے؟‘‘ تو حضرت علی نے صرف زرہ ہونے کا ذکر کیا۔ آپﷺ نے مشورہ دیا کہ اس زرہ کو فروخت کردو۔ اہل سیر بالخصوص زرقانی نے شرح مواہب میں لکھا ہے کہ ’’حضرت علی نے وہ زرہ چار سو اسی (۴۸۰) درہم میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کردی۔ حضرت عثمان غنی نے پوری پوری رقم ادا کردی اور وہ زرہ بھی واپس (ہدیہ) دے دی، جس پر آپﷺ نے حضرت عثمان کو بہت دعائیں دیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے وہ پوری رقم (درہم) لاکر آپﷺ کو پیش کردی‘‘۔ آپﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ ’’اس رقم میں سے کچھ کی خوشبو خرید لاؤ (اور کچھ رقم سے کپڑے اور دیگر سامان)‘‘۔ چنانچہ عربی قسم کا بستر، تکیہ وغیرہ تیار کروایا گیا۔ ’’تواریخ حبیب الٰہ‘‘ میں ہے کہ باقی رقم حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دی اور فرمایا کہ ’’اس رقم سے حضرت فاطمہ کے لئے خانہ داری کا سامان، پلنگ، بستر وغیرہ (جہیز) کردو‘‘۔ اس جہیز کی تفصیل سے چند باتیں معلوم ہوئیں، جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جہیز و مال لڑکی والوں سے نہیں لیا جاتا، بلکہ خود لڑکے کو اپنی ہونے والی بیوی کے لئے پلنگ، بستر، کپڑے اور سامانِ خانہ داری وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔
محنتی اور دیندار لڑکے کو ترجیح دینا چاہئے، اگرچہ کہ وہ غریب و مفلس ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح دیندار اور خوب سیرتی کی حامل لڑکی کو ترجیح دینا چاہئے، اگرچہ اُس کا رنگ سانولا یا کالا ہی کیوں نہ ہو، یعنی خوبصورتی اور مالداری کو ترجیح نہیں دینا چاہئے، جو فانی اور آنی جانی ہوتی ہے۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آپﷺ نے جو سامان وغیرہ دیا تھا، وہ زرہ کی قیمت سے تھا اور وہ بھی بالکل معمولی۔ غور کیجئے! دونوں جہاں کے سردار آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی شادی ہے، آپﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کیا نہیں کرسکتے تھے؟ مگر ہرگز نہیں کیا، اس لئے کہ آپﷺ کو رہتی دنیا تک شان و شوکت کا نہیں، بلکہ سادگی کا نمونہ پیش کرنا تھا۔
آج جب لڑکی حسب منشاء جہیز نہیں لاتی تو ظلم و زیادتی شروع ہوجاتی ہے، یعنی چور اور ڈاکو کو اگر ایک بار مال کا چسکا لگ گیا تو وہ عادی مجرم بن جاتا ہے اور پھر اپنی حرکت سے باز آنے کا نام نہیں لیتا۔ اسی طرح مطالبہ کرنے والے بھی کسی نہ کسی بہانے ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں، کبھی ستواسہ، کبھی چھٹی، کبھی نام رَکھائی اور کبھی چھلہ وغیرہ کے نام پر لوٹتے رہتے ہیں۔ پھر جب مطالبات پورے نہیں ہوتے یا کمی ہوتی ہے تو صنف نازک پر مظالم ڈھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سارے مسلمانوں کو ہدایت کی توفیق دے۔ (آمین)