جی ایس ٹی کی عدم ادائیگی پر تمام وقف بورڈس کو نوٹس کی اجرائی

   

صرف مذہبی و خیراتی ادارے ٹیکس سے مستثنیٰ، جائیدادوں کے تجارتی استعمال سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کا اعلان

نئی دہلی۔ 5 فروری (سیاست ڈاٹ کام) ٹیکس حکام نے غیرمذہبی اور غیرخیراتی مقاصد کے لئے استعمال کی جانے والی موقوفہ جائیدادوں سے موصول ہونے والے کرایہ پر جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکس خدمات کی عدم ادائیگی پر متعلقہ وقف بورڈس نوٹسوں کی اجرائی کا آغاز کردیا ہے۔ ملک بھر کے 30 وقف بورڈ کے منجملہ کیرالا وقف بورڈ اور ممبئی کے داؤدی بوہرہ وقف بورڈ جسے دو مسلم موقوفہ ادارہ ہی جی ایس ٹی کے تحت خود کے درج کرائے ہیں چنانچہ محکمہ ٹیکس نے ان موقوفہ جائیدادوں کے تجارتی اغراض و مقاصد کے لئے استعمال سے حاصل ہونے والے کرایوں پر درکار ٹیکس کی وصولی کیلئے متعلقہ وقف بورڈ کو نوٹس کی اجرائی کا آغاز کردیا ہے۔ ٹیکس محکمہ کے ذرائع نے کہا ہے کہ ملک بھر میں دفاع اور ریلویز کے بعد مجموعی طور پر وقف بورڈس ہی غیرمنقولہ جائیدادوں کے سب سے بڑے مالکین ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق ان سے سالانہ 100 کروڑ روپئے کا ٹیکس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وقف بورڈس کی آمدنی اگرچہ انکم ٹیکس سے مستثنیٰ لیکن ماضی میں وصول کئے جانے والے ( تجارتی ٹیکس) اور موجودہ جی ایس ٹی کے معاملے میں ایسا (استثنیٰ) نہیں ہے۔ خدمات اور خدمات پر ٹیکس کے موجودہ قوانین کے مطابق تجارتی اغراض و مقاصد کیلئے لیز ؍ کرایہ پر دی جانے والی موقوفہ جائیدادوں میں بھی ٹیکس کی ادائیگی کی پابندی ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مروجہ قوانین کے مطابق ان جائیدادوں سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے تاوقتیکہ اس ضمن میں کوئی واضح استثنیٰ نہیں دیا جاتا۔ تاہم ایسی تمام موقوفہ جائیدادوں کو ہونے والی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ رکھی جاتی ہے۔ جو جائیدادیں مذہبی، امداد یا خیراتی مقاصد کیلئے استعمال کی جاتی ہیں۔ وقف جائیداد ان املاک کو کہا جاتا ہے کہ جو کسی منقولہ یا غیرمنقولہ کو ایسے کسی مقصد کیلئے مستقل طور پر وقف کردیا جاتا ہے جو (مقصد) مسلم شرعی قوانین کے مطابق نیکی ، مذہبی یا خیراتی عمل تصور کیا جاتا ہے۔

قانون غداری کی منسوخی کی تجویز نہیں : حکومت
نئی دہلی۔ 5 فروری (سیاست ڈاٹ کام) حکومت نے لوک سبھا کو آج مطلع کیا کہ قانون غداری کو منسوخ کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔ اس قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ مملکتی وزیر ہنس راج آہیر نے کہا کہ فوجداری قوانین میں ترامیم ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے اور بشمول ریاستیں حکومتیں مختلف فریقین و متعلقین سے مشاورت کے بعد ہی کی جاتی ہیں۔ آہیر نے ایک تحریری سوال پر اپنے جواب میں مزید کہا کہ ایسی کوئی تجویز حکومت کے زیرغور نہیں ہے۔ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ آیا نوآبادیاتی دور سے تعلق رکھنے والے غداری کے اس قانون کو حکومت کالعدم و منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔