جی ڈی پی کی گراوٹ

   

ہندوستان کی معیشت گذشتہ سات برسوں میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور ملک کی جی ڈی پی ( جملہ گھریلو پیداوار ) اب تو منفی 7.3 فیصد تک چلی گئی ہے ۔ گذشتہ سہ ماہی میں 1.6 فیصد کی ترقی کے بعد جی ڈی پی اس شرح پر ہے ورنہ 8 فیصد کی منفی جی ڈی پی کے جو اندازے لگائے گئے تھے صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہوجاتی ۔ یہ ساری صورتحال اس حقیقت کے باوجود ہے کہ مرکزی حکومت مسلسل دعوے کرتی جا رہی ہے کہ معیشت کو سدھارنے کیلئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے ۔ ملک کی معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ۔ ملازمتوں کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔ نئے اسٹارٹ اپس قائم ہو رہے ہیں۔ نئی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے ۔ حکومت کے تمام دعوے ایسا لگتا ہے کہ محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے ہیں کیونکہ حقیقی صورتحال حکومت کے دعووں سے یکسر مغائر ہے اور عوام کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ معاشی سرگرمیاں بظاہر تو ٹھیک ٹھاک دکھائی دے رہی ہیں لیکن حقیقت میں صورتحال بالکل برعکس ہے ۔ کروڑوں افراد روزگار سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور حکومت خواب غفلت میں ہے ۔ صنعتیں بند ہوتی جا رہی ہیں لیکن حکومت کے بلند بانگ دعوے اپنی جگہ برقرار ہیں۔ معاشی گراوٹ نئے ریکارڈز بناتی جا رہی ہے لیکن حکومت صورتحال کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہے ۔ مختلف گوشوں سے اس تعلق سے توجہ دہانی کے باوجود کسی کے مشوروں یا تجاویز کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا ہے ۔تجاویز اور مشورے دینے والوں کو دشمن سمجھا جا رہا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی جا رہی ہیں اور نتیجہ ہوا کہ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار منفی 7.3 فیصد تک جا گری ہے ۔ اس صورتحال میں بھی ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے اور وہ محض اقتدار کے نشہ میں مست ہے اور حالات کی سنگینی کا اسے احساس ہی نہیں ہورہا ہے ۔ ملک کی وزیر فینانس نرملا سیتارامن منظر سے ہی غائب نظر آ رہی ہیں۔ ملک کے عوام کو موجودہ صورتحال میں کسی طرح کے تیقن یا تسلی دینے کی بجائے وہ بجٹ کی پیشکشی کے بعد سے منظر عام پر ہی نہیں دکھائی دے رہی ہیں۔
صنعتی شعبہ کو مسلسل حکومت مدد فراہم کر رہی ہے ۔ صنعتی حلقوں کیلئے کئی پیاکیجس کا اعلان کیا گیا ۔ انہیں نت نئی مراعات دی جا رہی ہیں۔ کسانوں کی اراضیات کو کھینچ کر صنعتکاروں کے حوالے کیا جا رہا ہے ۔ کسانوں کے حقوق سلب کرنے کے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ کسان ان قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ کئی ماہ سے احتجاج جاری ہے لیکن حکومت اس احتجاج کو خاطر میں لانے اور کسانوں کی بات سننے کیلئے بھی تیار نظر نہیں آتی ۔ ہندوستان کی معیشت زراعت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ زرعی شعبہ کی ممکنہ حد تک مدد کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے حکومت صنعتی شعبہ کو مراعات فراہم کرنے میں مصروف رہتی ہے ۔ کسانوں کے مفادات پر سمجھوتہ کرتے ہوئے کارپوریٹس کے حق میں قانون سازیاں کی جاتی ہیں۔ حکومت کے غلط فیصلوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ نت نئے اور ناقابل فہم اقدامات نے معاشی سرگرمیوں کو ٹھپ کرکے رکھ دیا ہے ۔ ماہرین معاشیات اور صنعتی ماہرین کی رائے حاصل کرنے کی بجائے حکومت اپنے قول میں بند ہو کر کام کر رہی ہے اور یہ منفی علامات ہیں جن کے نتیجہ میں جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ ہی آتی جا رہی ہے ۔ جی ڈی پی میں مسلسل گراوٹ ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتی اس کا حکومت کو احساس کرنا چاہئے ۔
حکومت صرف اعداد و شمار کے الٹ پھیر کے ذریعہ ملک کے عوام کو گمراہ کر رہی ہے ۔ جہاںجی ڈی پی میںمسلسل گراوٹ آتی جا رہی ہے وہیں اسٹاک مارکٹ میں اچھال درج کیا جا رہا ہے ۔ یہ متضاد صورتحال ہے اور اس پر حکومت کو جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ جہاں جی ڈی پی گرتی جا رہی ہے وہیں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے ۔ پٹرول ملک کے کئی شہروں میں 100 کے پار ہوچکا ہے ۔ خوردنی تیل تک عوام کی پہونچ سے باہر ہوچلا ہے ۔ بحیثیت مجموعی صورتحال تشویش کا باعث ہی بنی ہوئی ہے ۔ حکومت کو کم از کم اب ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ جو غلطیاں کی گئیں ہے ان کا ازالہ کیا جانا چاہئے ۔ ماہرین کے مشوروں سے مستقبل کے منصوبے تیار کرنے اور ملک کی معیشت کو ایک بار پھر مثبت ترقی کی راہ پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام پر عائد ہونے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔