حضرت ابوطالب کی شاعری اپ کے طرز فکر اور اپ کے ایمان کو واضح کرتی ہے

   

ویسے تو بہت سے واقعات تاریخ میں ملتے ہیں جن سے حضرت ابوطالب کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عیاں ہے. مگر ہم یہاں صرف ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو مستند ہے اور وہ یہ ہے کہ: اہلیان حجاز پر قحط عارض ہؤا. لوگ – عیسائی و مشرک و جاہل و بت پرست اور دین حنیف کے پیروکار – سب کے سب مؤمن قریش حضرت ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ کیونکهہ انہیں معلوم تھا کہ مکہ میں دین ابراہیم (علیہ السلام) کے اس مروج و مبلغ جتنی کسی کو بھی خدا کی اتنی قربت حاصل نہیں ہے چنانچہ انہوں نے ان تشویشناک حالات میں ان ہی سے درخواست کی کہ اٹھیں اور “خدا سے باران رحمت کی درخواست کریں”ان کا جواب مثبت تھا اور ایسے حال میں بیت اللہ الحرام کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کی آغوش میں «چاند سا» لڑکا بھی تھا. حضرت ابوطالب نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں باران رحمت کی دعا کی. بادل کا نام و نشان ہی نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگی اور اس بارش نے حجاز کی پیاسی سرزمین کو سیراب کیا اور مکہ کی سوکھی ہوئی وادی کھل اٹھی❗

وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی اور نہ تھا جنہیں ابوطالب ہی جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں اور اسی بنا پر اللہ تعالی سے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وسلم)) کے صدقے باران رحمت کی دعا کی جو فوری طور پر قبول بھی ہوئی. حضرت ابوطالب اسی حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرماتے ہیں:

و أبيض يستسقى الغمام بوجهه

ثمال اليتامى عصمة للارام

وہ ایسا روشن چہرے والا ہے جس کے صدقے بادل پر باران ہوجاتے ہیں

وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں “

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10221364565410125&id=1428501366