حضرت خواجہ سید محمد صدیق محبوب اللہؒ

   

خالد محمود صدیقی قادری
سید خلیل احمد ہاشمی

سرزمین دکن میں بے شمار اولیاء اﷲ ، صالحین پیدا ہوئے جن میں حضرت سیدنا خواجہ محمد صدیق محبوب اللہ ؒ بھی شامل ہیں۔ آپؒ کی پیدائش ۲۹؍ شعبان المعظم ۱۲۶۳؁ہجری میں ہوئی ۔ آپؒ کا اسم گرامی سید محمد صدیق رکھا گیا ۔ آپؒ کو بچپن ہی سے علوم دینیہ سے غیرمعمولی دلچسپی تھی ، حافظ و قاری قرآن تھے ، فن تجوید پر بڑا عبور تھا ۔ تفسیر ، حدیث اور فقہ میں آپؒ کامل تھے ۔ عربی فارسی اور ادب میں آپؒ کو کمال حاصل رہا ۔ اردو زبان و ادب سے غیرمعمولی دلچسپی تھی ۔ چنانچہ ابتداء میں آپؒ کا حنفی مسلک رہا لیکن بعد میں آپؒ نے حنبلی منسلک اختیار کیا ۔
آپؒ کو اردو زبان و ادب سے غیرمعمولی دلچسپی تھی ۔ آپؒ نے شاعری میں خلقؔ تخلص رکھا ۔ آپؒ کے کتب خانے میں تقریباً ہر اسلامی موضوع پر کتابیں دستیاب تھیں۔ اعلیٰ اخلاق و کردار کے باعث نہ صرف وابستگان بلکہ دیگر لوگ بھی آپ کے شیدائی ہوجاتے ، بندگانِ خدا کی خدمت اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا آپؒ کا مشن رہا ۔
آپؒ شریعت کے انتہائی پابند تھے اور حدود شریعت سے کوئی بھی ہٹ جائے تو اُسے نصیحت کرتے ۔ آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ شریعت سیدھا راستہ ہے جس میں کسی طرح کا خطرہ نہیں ۔ قرآن و سنت کے مطابق عمل کریں اسی میں فلاح دارین ہے ۔ آپؒ کی تعلیمات میں سادگی ، انکساری اور میانہ روی کو اختیار کرنے پر زور دیا گیا ۔
آپؒ نے فرمایا کہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ذکر الٰہی کی پابندی کرے ذکر میں توجہ کامل لازمی ہے اس کے ساتھ ساتھ دنیا سے بے اتفات ہونا بھی ضروری ہے یہ اسی وقت ممکن ہے کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے اور صغیرہ گناہوں سے جس قدر ہوسکے بچے ۔ تکبر اور انانیت سب سے بڑا گنا ہے ۔ اسی طرح خودپسندی حماقت ہے اس سے عمل ضائع ہوجاتے ہیں ۔ حلال کمائی باعث خیر ہے اور لقمہ حرام باعث ظلمت اور فساد پیدا کرنے کا موجب ہے ۔ مسلمانوں کو اچھی تدبیر سکھانا واجب ہے ۔ نیک کام کے اظہار میں کسی طرح کی مصلحت اختیار نہ کی جائے ۔ حق پسندی اور حق گوئی اہل ایمان کا وطیرہ رہا ہے ۔
حضرت خواجہ محبوب اللہ ؒ نے ریاکاری اور دکھاوے کی شدید مخالفت کی ۔ لوگوں سے ستائش اور تعریف کے حصول کیلئے نیک اعمال کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا :’’ذرا سا نیک کام بھی خالص خدا کیلئے ہو تو وہ باعث نجات ہوگا ‘‘ ۔ جھوٹ ، غیبت ، حسد اور فضول گفتگو دل کا نور کھودیتے ہیں ۔ آپؒ نے اہل سلسلہ کو تلقین کی کہ وہ اپنے کاموں میں اﷲ سے ہر وقت مدد چاہیں اور ہر وہ سبب کو جوخدا سے دور کرتا ہے بے تعلقی اختیار کریں۔ آپؒ نے سلوک کی دس منزلوں کی نشاندہی کی جن میں تواضع ، صبر ، شکر ، قناعت پسندی ، عزلت ، اﷲ سے محبت ، ذکر، رضائے حق پر راضی رہنا ، ہر حال میں اﷲ سے ڈرنا اور اُسی سے اُمید رکھنا اور خدا پر مکمل بھروسہ کرنا شامل ہیں۔ آپؒ نے سلام کو رائج کرنے پر زور دیا ۔سلام کے علاوہ مصافحہ کرنے سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے ۔بزرگوں کا ادب لازمی ہے ، بزرگوں سے مصافحہ اور معانقہ اچھا عمل ہے ۔ آج کے حالات میں حضرت خواجہ محبوب اللہ ؒ کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ ہے جن پر عمل پیرا ہوکر ہم دنیا و آخرت کو سنوارسکتے ہیں ۔ آپؒ کا وصال ۱۸ ذیقعدہ ۱۳۱۳؁ ھ روز شنبہ کو ہوا ۔ ۱۹ ذیقعدہ کو بعد نماز ظہر نماز جنازہ ادا کی گئی اور قاضی پورہ میں آپؒ کے والد محترم کے بازو تدفین عمل میں آئی ۔

آپؒ کا اسم گرامی سید محمد صدیق حسینی قدس سرہ عرف ’’خواجہ میاں‘‘ اور تخلص ’’خلقؔ‘‘ المخاطب من اللہ ’’محبوب اللہ‘‘ آپؒ کی تاریخ پیدائش ۲۹؍شعبان المعظم اور سنہ ہجری ۱۲۶۳؁ آپؒ کا سلسلہ نصب حضرت سیدنا امام نقی بن سید نامام علی الرضا رضی اللہ تعالی عنہ کو پہنچتا ہے۔ اس طرح آپؒ سعادات حسینیہ سے ہیں۔ آپؒ کے والد بزرگوار کا نام حضرت مولانا حاجی میر پرورش علی المعروف سید محمد بادشاہ حسینی قبلہ قدس سرہ تھا جو علوم عربیہ کے ماہر اور فارسی کے انشا پرداز شاعر تھے۔ اور نواب افضل الدولہ بہادر کے اتالیق تھے لیکن بعد زیارت روضۃ النبی ﷺ اس خدمت سے دست بردار ہوگئے یہ کہکر کے اتنی بڑی سرکار میں ہاتھ باندھنے کے بعد کسی اور کے سامنے ہاتھ باندھنا نہیں چاہتا یہ تھا ان کا عشق نبویﷺ ، آپؒ صاحب کشف و کرامات بھی تھے۔ آپؒ کا وصال ۲۳؍ربیع الثانی ۱۲۸۶ھ؁ میں ہوا اور روبرو مسجد النور قاضی پورہ میں مدفن ہوئے۔ آپؒ کے جانشین حضرت سید محمد صدیق محبوب اللہ ہوئے۔
آپؒ کا لباس بالکل سادہ اور عام مشائخ کی طرح جبہ و قبہ استعمال نہیں کرتے۔حضرت مولانا شاہ محمد عبدالقدیر صدیقی حسرتؔ ؒ فرماتے تھے کہ آپؒ کی نظر بے حد وسیع تھی۔ حضرت کے چہرۂ مبارک پر اس قدر رعب تھا کہ کوئی شخص بھی حضرت سے یک بیک ہم کلام نہ ہوسکتا تھا۔ اکثر مریدین دو چار روز تک اپنا معروضہ بیان نہیں کرسکتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ حضرت خود ہی دریافت فرماتے کہ کیا تم کچھ کہو گے تب معروضہ پیش کیا ورنہ خاموش۔
آپؒ کی شادی ۱۲۸۴ھ؁ یا ۱۲۸۵؁ھ میں والد ماجد کے سامنے ہی حضرت سید شیخن احمد صاحب قبلہ شطاری (اولیٰ) کی صاحبزادی محترمہ ’’قمرالنساء صفیہ‘‘ سے ہوئی۔ آپؒ ابتداء سے حنفی مسلک سے وابستہ تھے لیکن بعد میں آپؒ تبدیل مسلک فرمایا اور حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیروی اختیار فرمائی تو آپؒ کے ساتھ آپؒ ہی کے حکم سے آپؒ کے خلفاء و مریدین نے بھی حنبلی مسلک اختیار کیا۔ حضرت کو پابندی شریعت کا بے حد خیال رہتا چنانچہ ارشاد ہوتا کہ ’’یہی وہ سیدھا راستہ ہے جس میں کسی قسم کا خطرہ نہیں‘‘ اس لئے آپؒ اپنے متبعین کو ہر دم اس کا خیال رکھنے کی شدت سے تاکید فرماتے۔ اور کہتے کہ’’قرآن اور حدیث پر عمل کرو اس کوہاتھ سے جانے نہ دو۔‘‘
آپؒ کا ابتدائی سفر حج و زیارت نبوی ﷺ والدین کے ساتھ تقریباً (۱۷) سال کی عمر میں ہوا اور آپؒ کے منجھلے بھائی سید محمود صاحب مکہ مکرمہ میں ہی تولد ہوئے تو ان کی عرفیت ’’مکی میاں‘‘ ہوگئی۔
یہ شریعت اور طریقت کا مینار ماہ ذیقعدہ ۱۳۱۳ھ؁ میں اس جہاں فانی سے رخصت ہو گیا۔ ۱۸؍ تاریخ کی رات یعنی ۱۹؍ویں شب حالت بگڑنے لگی اور آپؒ استغراقی کیفیت میں جب کہ آپؒ کا سر مبارک قبلہ کی سمت تھا اور جنوب کی سمت مکان میں آمد و رفت کا راستہ تھا اُدھر رخ کر کے آپؒ نے السلام علیکم تشریف لائے کئی دفعہ ٹھیر ٹھیر کر فرمایا گویا کسی آنے والے کا آپؒ استقبال کر رہے ہیں اور آنے والے ایک کے بعد ایک کئی ہیں۔ چھوٹے بھائی حضرت سید عمر صاحبؒ نے یٰسین شریف کی تلاوت بآواز بلند شروع کر دی چنانچہ تھوڑی دیر بعد حضرت قبلہ (محبوب اللہ) نے حق حق حق فرمایا اور مالک حقیقی سے جاملے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون