حضرت سید احمد بادپا رحمۃ اللہ علیہ

   

مولانا سید شاہ محمد جعفر محی الدین حسینی قاری
دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت ، ترویج و اعانت کے لئے جن اولیائے کرام نے اپنے مستقر سے ہجرت فرماکر دیارِ غیر میں بودوباش اختیار کی اور تادم حیات رشد و ہدایت کا مبارک فریضہ انجام دیتے رہے ایسے اولیائے کاملین ، داعیانِ دین متین کی جلیل القدرخدمات سے آج بھی ہماری تاریخ کے ابواب روشن ہیں ۔ اس خصوص میں شہنشاہِ دکن حضرت سیدنا بابا شرف الدین سہروردی ؒ کے بعد ابدال دکن حضرت سید احمد بادپا رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کا نام نامی قابل ذکر ہے ۔
ابدال دکن حضرت سید احمد بادپاؒ کا اسم شریف سید احمد اور لقب بادپا ہے ، حضرت کے لقب بادپا سے متعلق کئی روایتیں ہیں۔ ان میں سب سے مشہور یہ ہے کہ آپؒ نے ایک شب میں حیدرآباد سے دہلی کا سفر فرمایا اور اسی شب دہلی سے حیدرآباد واپس بھی آگئے اسی لئے آپؒ کو بادپا کہا جاتا ہے ، اس واقعہ کو حیدرآباد کے ایک شاعر جناب محسنؔ نظامی نے یوں نظم کیا ہے
پتہ جس کے نہیں ہے نقشِ پا کا
سفر ہوتا ہے طئے یوں بادپا کا
جو دہلی جا کے آئے ایک شب میں
یہ وہ رتبہ ہے محسنؔ بادپا کا
عوام و خواص میں آپؒ حضرت سید احمد بادپا سے معروف و مشہور ہیں۔ آپؒ کی سیادت آپؒ کے نام سے ظاہر ہے ۔ آپؒ کی ولادت باسعادت دہلی میں ہوئی اور وہیں آپؒ نے تعلیم و تربیت بھی حاصل فرمائی ۔ بعدہٗ آپؒ نے سلطان المشائخ حضرت سیدنا خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی ۔
پیر و مرشد کے حکم عالی پر بزمانۂ سلطان علاء الدین خلجی ۷۰۹؁ ھ م ۱۳۰۹؁ء میں حضرت خواجہ شیخ برھان الدین غریب ؒ کے ہمراہ آپؒ نے دہلی سے دکن کی جانب مراجعت فرمائی ، اس وقت دکن کے علاقہ پر راجہ رانا پرتاب ردد دیو کی حکومت تھی ، دکن آنے کے بعد حضرت خواجہ شیخ برھان الدین غریبؒ نے شہر خلدآباد میں رہائش اختیار کی اور حضرت سید احمد بادپا ؒ حیدرآباد کی طرف عازم سفر ہوئے ۔
حضرت سید احمد بادپاؒ حیدرآباد آنے کے بعد تقریباً ۳۰ سال یہاں یادِ الٰہی میں مصروف رہے اور ۷۳۷؁ھ م ۱۳۲۶؁ ء میں واصل بحق ہوئے اور جائے قیام کے نزدیک آپؒ کی تدفین عمل میں آئی ۔ یہ علاقہ چونکہ نہایت غیرآباد تھا اس لئے آہستہ آہستہ آپؒ کی مزار مبارک بھی معدوم ہوگئی ، اس واقعہ کے تقریباً ۵۰۰ سو سال بعد ۱۲۴۴؁ ھ بعہد حکومت رئیس دکن نواب ناصرالدولہ بہادر آصف جاہ چہارم بکر قصاب جناب بالن چودھری کی بکریوں کی گم شدگی کا واقعہ پیش آیا جو اس علاقہ میں چرنے گئیں تھیں اور گم ہوگئیں، قصاب ان کی تلاش کرتا ہوا اس مقام پر آیا اگرچہ کہ اس وقت حضرت کا مزار مبارک بالکل بے نام و نشان ہوچکا تھا مگر آثار مزار باقی تھے ، بالن چودھری کے ہمراہی ایک چرواہے کی نظر مزار پر پڑی اس نے بالن چودھری کو بتایا کہ یہاں ایک پرانی قبر معلوم ہوتی ہے ، بالن چودھری نے نذر مانی کہ اگر میری بکریاں مل جائیں گی تو میں سچے دل سے آپؒ کی نیاز کروں گا ۔ روایت ہے کہ اسی شب حضرت احمد بادپاؒ نے بالن چودھری کو آگاہ کیا کہ ’’میں سید احمد بادپا ہوں ، تیری بکریاں دامن پہاڑ میں چر رہی ہیں ‘‘ ۔ چودھری نے علی الصبح اس مقام پر جاکر دیکھا تو بکریاں موجود پائیں ، اس خوشی میں حسب ارادہ بالن چودھری نے حضرت کی نیاز کی ۔ حضرت کی مزار مبارک کے ظہور میں آنے کے بعد بالن چودھری نے پہلی نیاز ۱۲؍ جمادی الاول ۱۲۴۴؁ ھ کو کی تھی اس لئے انہی تواریخ میں ۱۰، ۱۱ اور ۱۲؍ جمادی اولال کو آپؒ کا سہ روزہ عرس شریف بڑی عقیدت و محبت سے منایا جاتا ہے ۔