حلم و بردباری اور عفو و درگزر پیغمبرانہ صفات

   

تمام انبیاء کرام علیھم السلام حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کے جامع نمونہ تھے جن سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو ہمیشہ اخلاق اور اعلیٰ کردار کی رہنمائی حاصل ہوتی رہی ۔ ارشاد باری ہے :
یہ ( انبیاء) وہ لوگ ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت دی تھی تو
آپ انہی کی ہدایت کی پیروی فرمائیں ۔(سورۃ الانعام : ۹۱)
انبیاء کرام علیھم الصلاۃ والسلام میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی ذات اقدس پر تمام انبیاء علیھم السلام کے مکارم اخلاق کی عظیم الشان طریقہ پر تکمیل ہوئی ۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی : بعثت لأتمم مکارم الاخلاق ۔ ترجمہ : میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں ۔ ( کنزالعمال ۲:۵)
آپ ﷺ کے خلق عظیم میں جو ظاہری اور معنوی کمالات و محاسن پوشیدہ و مضمر ہیں اسی کی بناء دنیائے انسانیت کو بلاامتیاز رنگ و نسل آپؐ کی اتباع اور آپؐ کی پیروی کرنے کی تلقین کی گئی ۔ ’’یقینا بمہارے لئے رسول اﷲ ﷺ میں عمدہ نمونۂ عمل موجود ہے ‘‘۔ ( سورۃ الاحزاب:۲۱)
صرف یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ کی فرمانبرداری کو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت قرار دیا گیا یعنی ’’جو شخص رسول اﷲ ﷺکی فرمانبرداری کریگا تو بے شک اس نے اﷲ کی فرمانبرداری کی ‘‘۔ ( سورۃ النساء : ۸۰)
دوسرے مقام پر آپﷺ کی پیروی کرنے والوں کو اﷲ کی طرف سے محبت اور بخشش کی نوید سنائی گئی : ’’آپ کہہ دیجئے کہ تم اﷲ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اﷲ بھی تم سے محبت کریگا اور تمہارے گناہ معاف کردیگا‘‘۔
آپ ﷺ کے مکارم اخلاق اور عادات حسنہ کے اپنے ہی نہیں بلکہ دشمن بھی مداح تھے چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ تمام تر مخالفت ، عداوت اور دشمنی کے باوجود کسی بھی دشمن نے آپؐ پر امانت میں خیانت کرنے اور دروغ گوئی کا الزام نہیں لگایا ۔ اسی بناء پر بعثت مبارکہ سے پہلے آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ میں آپ کے حقیقی نام مبارک کی بجائے ’’الامین‘‘ اور ’’الصادق‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا اور آپ ﷺ کا گھر اچھا خاصا ’’دارالامانۃ‘‘ بنا ہوا تھا ۔ حضرت ابوسفیانؓ سے ان کے زمانۂ کفر میں قیصر روم آپﷺ کے بارے میں پوچھا : کیا نبوت سے پہلے آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ کہا ہے ؟ تو انھوں نے کہا : نہیں ، پھر اس نے پوچھا کہ کیا کبھی آپ ؐ نے کسی سے دھوکا کیا ہے ؟ انھوں نے کہا : نہیں ۔ ( البخاری)
نبی اکرم ﷺ اس لحاظ سے یہ امتیاز رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات میں وہ تمام اوصاف اور محاسن خلقی اور فطری طورپر جمع تھے جنہیں سلیم الطبع اور راست فکر لوگ عظمت و رفعت کا معیار سمجھتے ہیں ۔ آپ ﷺ کو ان عادات کے لئے نہ تو تربیت کی ضرورت پیش آئی اور نہ محنت و ریاضت کی بلکہ خالق فطرت نے آپ ﷺ کو انہیں اوصاف پر تخلیق کیا اور ان محاسن کو آپ ﷺ کی طبیعت مبارکہ میں راسخ فرمادیا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : اﷲ تعالیٰ نے میری تربیت خود فرمائی ہے ( الشفاء ص : ۴۶، حاشیہ ۲۹)
انہی اعلیٰ صفات وعدہ اخلاق میں ایک نہایت اہمیت کی حامل صفت حلم و بردباری اور عفو و درگزر ہے ۔ لوگوں کے ساتھ معاملت کرنے میں اکثر حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ ایسے موقعوں پر آپ ﷺ کا طرزعمل ہمیشہ عفو و بردباری کا رہا چنانچہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آپ ﷺ نے تمام زندگی اپنے اوپر کی گئی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا ، سوائے اس صورت کے کہ اﷲ تعالیٰ کے کسی حکم کو پامال کیا گیا ہو تو اس وقت آپ ﷺ سختی سے مواخذہ فرماتے ۔(البخاری:۳:۳۹۵ کتاب المناقب) آپ ﷺ کا فرمان ہے : طاقتور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت خود پر قابو رکھے ( البخاری ،۴: ۱۳۹ کتاب الادب)
کتب سیرت آپ ﷺ کے حلم و بردباری و عفو و درگز کے واقعات سے لبریز ہے ان میں ایک روح پرور واقعہ زید بن سعنہ کا ہے ، وہ یہود کے بہت بڑے عالم اور نہایت متمول تھے ، جب ان کے دل میں ایمان کی رغبت جاگ اُٹھی ، اور سارے اوصاف نبوت کو پرکھ لیا ، ان کو مزید دو صفات کو جانچنے کی خواہش تھی کہ نبی کی حلم و بردباری غضب و جلال پر غالب ہوتی ہے اور نبی کے ساتھ جتنا زیادہ نادانی کا معاملہ کیا جائے ان کی بردباری اتنی ہی بلند ہوتی ہے ۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک بدّو حاضر ہوئے اور اپنے قحط کا شکوہ کیا اور نومسلم گاؤں والوں کی مدد کرنے کی فریاد کی اس وقت نبی اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کچھ مال باقی ہے یا نہیں ، آپؐ کو اطلاع دی گئی کہ کچھ مال باقی نہیں ، اسی وقت زید بن سعنہ جوکہ اسلام قبول نہیں کئے تھے، حضور پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کیا اگر آپ چاہیں تو میں پیسے آپؐ کو ابھی دے دیتا ہوں اور اس کے بدلہ میں آپ فلاں قبیلہ کے باغ کی اتنی کھجویں مجھے فلاں وقت تک دے دیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے کسی مخصوص باغ کو معین نہ کرنے کی شرط پر قبول فرمالیا ، زید بن سعنہ نے اسی (۸۰)مثقال سونا پیش کردیا اور وقت مقررہ سے دو تین دن پہلے آ پہنچے جبکہ نبی اکرم ﷺ نماز جنازہ سے فارغ ہوکر ایک دیوار کے قریب بیٹھنے کے لئے تشریف لے گئے ۔ انھوں نے گریبان پکڑلیا ، غصہ بھرا چہرہ بنالیا اور کہا : ’’آپ میرا حق کیوں ادا نہیں کردیتے ۔ اﷲ کی قسم تم اولاد عبدالمطلب نے ٹال مٹول کرنا سیکھ لیا ہے ‘‘۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ موجود تھے، اور یہ نازیبا کلمات سماعت فرمارہے تھے اجلال میں آئے اور زید بن سعنہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا اگر یہ مجلس کا ادب ملحوظ نہ ہوتا تو تمہاری گردن سر سے الگ کردیتا ، حضور پاک ﷺ بڑے سکون و اطمینان سے ملاحظہ فرمارہے تھے ، ارشاد فرمایا : ’’اے عمر! تمہیں تو چاہئے تھا کہ مجھے حسنِ ادا کی اور انھیں حسن مطالبہ کی تلقین کرتے ،جاؤ جتنا ان کا حق بنتا ہے وہ بھی ان کو دیدو اور جو تم نے ان کو ڈرایا ، دھمکایا ہے اس کے عوض مزید بیس صاع ان کو دیدو ‘‘۔ جب حضرت عمر سارے کھجور ان کو دیدیئے تو انھوں نے سوال کیا : اے عمر ؓ ! کیا تم مجھے جانتے ہو ، انھوں نے کہا نہیں ! انھوں نے کہا میں زید بن سعنہ ہوں ۔ حضرت عمرؓ نے کہا : وہ جو یہودیوں کے بڑے عالم ہیں؟ انھوںنے کہا : ہاں ! حضرت عمر ؓ نے کہا کہ تم نے ایسا سلوک کیوں کیا تو جواب دیا میں نبوت کی تمام نشانیاں حضور اکرم ﷺ کے چہرہ انور میں دیکھ چکا تھا صرف دو نشانیاں ایسی تھیں جن کو میں آزمایا نہیں تھا کہ نبی کی بردباری ان کے غضب و جلال پر غالب ہوتی ہے اور جتنا نادانی کا معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گا اتنی بردباری اُن کی بڑھتی جاتی ہے ۔ پھر انھوں نے کہا میں مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اپنی آدھی دولت محمد ﷺ کی ساری اُمت کے لئے وقف ہے ۔ حضرت عمرؓ نے رہنمائی کی اور فرمایا ساری اُمت کی بجائے بعض اُمت کے لئے وقف کی جائے ۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حضرت زید بن سعنہ نے حضور پاک ﷺ کی بارگاہ میں اسلام قبول کیا، اُن کا ایمان اچھا ہوا اور بہت سے غزوات میں شریک ہوئے اور غزوہ تبوک میں آگے بڑھتے ہوئے انھوں نے وفات پائی ۔