حماس ۔ اسرائیل جنگ بندی

   

قطر کی مسلسل کاوشوں کے نتیجہ میں بالآخر حماس اور اسرائیل کے مابین چار دن کیلئے جنگ بندی سے اتفاق کرلیا گیا ہے ۔ حالانکہ یہ جنگ بندی محض چار دن کیلئے اور عارضی ہے اس کے باوجود اس سے مثبت توقعات اور امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں۔ اس بات سے بھی اتفاق ہوا ہے کہ اسرائیل کے جو 50 یرغمالی حماس کی قید میں ہیں انہیں رہا کردیا جائیگا اور بدلے میں اسرائیل کی جیلوں میں مقید 150 فلسطینی خواتین اور بچوں کو بھی رہائی مل جائے گی ۔ اس بات کا جنگ بندی معاہدہ میں کوئی تذکرہ نہیں ہے کہ چار دن کے بعد آیا اس جنگ بندی میں توسیع کے کوئی امکانات ہیں یا نہیں۔ عالمی برادری کی جانب سے جنگ بندی کی اس کوشش کا خْر مقدم تو کیا جا رہا ہے لیکن ضرورت اسبات کی ہے کہ اس جنگ بندی کو دیرپا اور طویل بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ فوری توجہ اسی بات پر مرکوز ہونی چاہئے کہ فلسطینیوں تک انسانی بنیادوں پر راحت اور سہولیات پہونچائی جائیں ۔ انہیں غذا اور دوا فراہم کی جائے ۔ ان کے مشکل ترین حالات کو ممکنہ حد تک بہتر بنایا جاسکے ۔د واخانوں میں زخمیوں کو طبی امداد مل سکے اور مستقبل میں دواخانوں پر حملے نہ ہونے پائیں۔ اسرائیل کو اس بات کیلئے پابند کیا جانا چاہئے کہ وہ بے ہنگم طاقت کا استعمال کرنے سے باز آجائے اور اس کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے سرزنش کی جانی چاہئے ۔ اسرائیل پر تحدیدات بھی عائد کرنے کا انتباہ دیا جاسکتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ جنگ بندی کا جو معاہدہ ہوا ہے اس پر عمل آوری ہوسکے اور اس کے ذریعہ دیرپا اور طویل جنگ بندی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ محض چار دن کیلئے نہتے اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کو راحت کافی نہیں ہوگی ۔ انہیں انتہائی مشکل ترین حالات کا شکار کردیا گیا ہے ۔ ان کیلئے موت زندگی سے زیادہ سہل ہوگئی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی طاقتیں کم از کم اب اسرائیل کی چاپلوسی سے باز آجائیں اور انسانی بنیادوں پر انصاف رسانی کیلئے سرگرم ہوجائیں۔ فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا سلسلہ روکا جائے اور انہیں بھی مساوی مواقع اور حقوق دئے جائیں ۔
امریکہ ‘ چین ‘ روس ‘ برطانیہ ‘ جرمنی اور دیگر ممالک نے اس چار روزہ جنگ بندی کا خیرمقدم کیا ہے لیکن ان کے قائدین کو چاہئے کہ وہ اسی پر اکتفاء نہ کریں بلکہ اس جنگ بندی کو دیرپا اور مستقبل بنانے کے منصوبہ پر فوری عمل کیا جائے ۔ فریقین کے مابین بات چیت کا سلسلہ جاری رکھاجائے اور غاصب و ظالم اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ غیر انسانی بمباری اور بہیمانہ کارروائیوں کا سلسلہ ترک کرے ۔ عالمی قائدین کو کئی دہوں سے جاری اسرائیل غاصبانہ قبضہ اور تسلط کو ختم کرنے اور فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اس مسئلہ کی یکسوئی کیلئے بھی کوششوں کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح سے ہزاروں فلسطینیوں کو ظالم اسرائیل نے شہید کردیا اس پر ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے انصاف کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ عالمی طاقتیں اس سلسلہ میں اگر سنجیدگی سے کوششوں کا آغاز کریں تو اسرائیل پر لگام نہ کسی جاسکے ۔ دنیا کو ظالموں کا ساتھ دینے کی بجائے مظلوموں کی داد رسی کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ جب تک فلسطینیوںکو ان کا جائز حق اور مقام نہ دلایا جائے اس وقت تک اس خطہ میں حالات کے پرامن اور بہتر ہونے کی امید کرنا فضول ہوگا ۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی اس معاملے میں بے بس ہو گیا ہے ۔ اقوام متحدہ سکریٹری جنرل اگر انصاف کی بات کرنے لگیں تو انہیں بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ یہ ساری صورتحال حد درجہ افسوسناک ہے اور اس کو تبدیل ہونا چاہئے ۔
اولین فرصت میں فلسطینی عوام تک انسانی بنیادوں پر راحت اور امداد پہونچاتے ہوئے ان کے اوسان بحال کئے جانے چاہئیں۔ چار روزہ جنگ بندی کو دیرپا اور مستقبل بنانا چاہئے ۔ جنگ بندی کے دوران اس مسئلہ کی یکسوئی کیلئے سنجیدہ اور حقیقی کوششوں کا آغاز ہونا چاہئے اور اسرائیل پر لگام کسی جانی چاہئے ۔ دنیا کو اپنی بے حسی کا سلسلہ بند کرنا چاہئے ۔ یہ حقیقت تسلیم کی جانی چاہئے کہ اسرائیلی جارحیت اور مظالم کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور اگر دنیا مظلوم فلسطینیوں کو انصاف دلانے میں ناکام ہوتی ہے تو وہ بھی اسرائیلی مظالم اور جبر و استبداد میں برابر کی حصہ دار ہوگی بلکہ برابر کی گناہ گار ہی قرار دی جائے گی ۔