حکم ِ رضاعت بعد مدت ِ رضاعت

   

سوال: کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنے حقیقی بھائی کی یکایک موت واقع ہونے پر اپنی بھاوج ہندہ سے ملنا چاہا جبکہ وہ عدت میں تھی اور اس کو ایک شیر خوار لڑکا تھا۔ ہندہ کے والدین اور اعزہ نے کہا چونکہ تم نامحرم ہو اسلئے ہندہ سے نہیں مل سکتے، اگر تم ملنا چاہو تو بھاوج (ہندہ) کا دودھ پی لو وہ تمہاری رضاعی ماں بن کر محرم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ زید اپنی بھاوج کا دودھ پی کر محرم ہوگیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد زید نے ہندہ سے نکاح کرلیا۔ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے؟بینواتؤجروا
جواب : شرعاً مدتِ رضاعت (ڈھائی سال) گزرنے کے بعد دودھ پینے سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ عالمگیری جلد اول کتاب الرضاع میں ہے: واذا مضت مدۃ الرضاع لم یتعلق بہ تحریم۔
پس صورت ِ مسئول عنہا میں زید نے اپنی بھاوج ہندہ کا دودھ جو پیا اس سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوئی بعد میں ہندہ سے جو عقد کیا شرعاً درست و جائز ہے۔
جمعہ کی اذانِ ثانی کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جمعہ کے دن اذان ثانی منبر کے روبرو دینی چاہئے یا باب الداخلہ پر ؟ کیا اس کاتعلق عقائد سے بھی ہے کہ خلاف کرنے وا لا بد عقیدہ ہو گا ؟
جواب : جمعہ کے اذان ثانی کا مسئلہ عقیدہ سے متعلق نہیں ہے ۔ بلکہ شریعت مطہرہ کے ظاہری عمل سے ہے ، یہ اذان خطیب جب منبر پر بیٹھ جائے تو منبر کے روبرو دی جائے ۔ نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک اور شیخین رضوان اﷲتعالیٰ علیہما کے دور خلافت میں یہی ایک اذان تھی ، حضرت سیدنا عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خارج مسجد پہلی اذان رائج فرمائی ۔ ہدایہ باب الجمعۃ میں ہے (واذا صعد الامام المنبر جلس وأذن المؤذن بین یدی المنبر ) بذلک جری التوارث ولم یکن علی عہد رسول اﷲ ﷺ الا ھذا الاذان اور ہدایہ کے حاشیہ میں ہے قولہ ولم یکن الخ اخرج الجماعۃ الا مسلما عن السائب بن یزید قال کان النداء یوم الجمعۃ أولہ اذا جلس الامام علی المنبر من عھد رسول اﷲ ﷺ وأبی بکر وعمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما ، فلما کان زمن عثمان وکثر الناس زاد النداء اور فتاوی عالمگیری جلد اول ص ۱۴۹ میں ہے ، واذا جلس علی المنبر أذن بین یدیہ وأقیم بعد تمام الخطبۃ بذلک جری التوارث کذا فی البحر الرائق ۔ نیز نور الایضاح میں خطبہ کے سنن کے تحت لکھا ہے والأذان بین یدیہ کالاقامۃ ۔پس صورت مسئول عنہامیں جمعہ کی اذان ثانی خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے بعد منبر کے سامنے دی جائے ۔ اسی پر قدیم سے امت کا عمل ہے ۔
’سید‘ کا تعلق نسباً باپ سے ہوگا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غیرمسلم لڑکے ماریگا ولد ینکیا عمر دس سالہ کو اس کے مانباپ کی رضامندی سے ایک مسلمان شخص نے گھر یلو کام کیلئے کھانے کپڑے کی ذمہ داری کے ساتھ اپنے پاس رکھ لیا ۔ اس لڑکے کانام بہ طیب رضا مشرف بہ اسلام ہونے پر جمشید رکھا گیا اور اسی نام سے پکارا جاتارہا نیز حسب قانون حفاظت اطفال تحت دفعہ (۱۲) محکمئہ نظامت میں نومسلم جمشید ولد ینکیا کے نام سے رجسٹرڈ ہوا ۔ اب یہ عاقل بالغ شادی شدہ ہے اور اپنا نام جمشید علی رکھ لیا پھر اپنے کو ’’سید‘‘ باور کرانے نام کے ساتھ لفظ ’’ سید ‘‘ کا اضافہ کرلیا ہے ۔ایسی صورت میں کیا کوئی نو مسلم سادات کا شرف حاصل کرکے داخل نسب ہوسکتا ہے؟ بینوا تؤجروا ۔
جواب : شرعاً نسب کا تعلق باپ سے ہے النسب ھو مصدر نسبہ الی أبیہ ۔ ردالمحتار جلد دوم کتاب الطلاق فصل ثبوت النسب ۔
پس صورت مسئول عنہا میں جمشید غیر مسلم ینکیا کا لڑکا ہی رہے گا ،اپنے کو ’’ سید ‘‘ ’’ہاشمی النسب ‘‘ باور کروانے سے نسباً ’’ سید ‘‘ نہیں ہوسکتا ۔