حکومت نہیں، پہلے اپنی سوچ بدلیں

   

محمد مصطفی علی سروری
کورونا وائرس سے محفوظ علاقوں میں جیسے ہی لاک ڈائون میں نرمی کا فیصلہ کیا گیا تو سونے کی دوکانات (جویلری) پر عوام کا ہجوم دیکھا جانے لگا۔ اخبار بزنس اسٹانڈرڈ کی 11؍ مئی 2020 کی رپورٹ کے مطابق ملک کے گرین زونس میں جویلری کی دوکانات بتدریج انداز میں کھلنے لگیں تو سونے کی برائے نام فروخت ہوئی لیکن بڑی تعداد میں عوام جویلری کی دوکانات پر آکر یہ معلوم کر رہے تھے کہ ان کے زیورات کو کیسے فروخت کیا جاسکتا ہے اور انہیں پرانا زیور فروخت کرنے پر کتنے پیسے ملیں گے۔ بزنس اسٹانڈرڈ کی رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے جویلری کی مزید دوکانات کھلیں گی لوگوں کی مزید تعداد اپنا زیور بیچنے کے لیے آئے گی۔ رپورٹ میں بتلایا گیا کہ اگلے تین مہینوں کے دوران توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ جویلری کی دوکانات پر 50 فیصدی کاروبار پرانے زیورات کی خریداری کا ہی ہوگا۔

سریندر متیا India Bullian and Jewellers Association
کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ان کے مطابق صرف پرانے زیورات کی خریداری سے ہی جویلرس کو 60 تا 70 ٹن سونا ملنے کی توقع ہے اور پرانے زیورات کا یہ کاروبار خاص کر تین ریاستوں اتر پردیش، بہار اور مغربی بنگال سے ہوگا کیونکہ ملک بھر سے اپنی اپنی ریاستوں کو واپس لوٹنے والے مزدور اب بیروزگاری کی حالت میں اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنے زندگیوں، گھروں کی اکلوتی بچت سونے کے زیور کو بازار میں فروخت کر کے گذر بسر کا سامان اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے۔

قارئین کرام یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور اور غیر مقامی لوگ جو بہار، اترپردیش اور مغربی بنگال سے آکر ملک کی دیگر ریاستوں میں کام کر کے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے والے غریب بھی اتنی بچت کرلیتے تھے کہ سونے کا کاروبار کرنے والی صنعت کے کاروباری افراد ان سے 60 ٹن سونا پرانے زیورات کی شکل میں واپس بازار میں آنے کی توقع کر رہے ہیں۔ملک میں مسلمانوں کی پسماندگی ایس سی / ایس ٹی اور او بی سی سے زیادہ ہی ریکار ڈ کی جاتی ہے یا رپورٹس میں بارہا اس بات کا ذکر ہوتا ہے۔ کیا مسلمانوں کے ہاں ایسی کوئی بچت کا تصور ہے؟ کہ وہ بچت کر کے کچھ نقد رقم یا سونا ناگہانی حالات کے لیے محفوظ رکھیں۔

قارئین یہ تعجب کی بات ہے کہ مسلمانوں کے ہاں بچت کا تصور عام ہے لیکن یہ بچت کس مقصد کے لیے یا کس غرض سے کی جاتی ہے وہ بھی جان لیجیے۔ ابرار آٹو ڈرائیور ہے، لاک ڈائون میں 25؍ مارچ سے آٹو بند ہے۔ لیکن ابرار اس دوران خالی نہیں بیٹھا۔ اس نے ترکاری کا کاروبار شروع کردیا۔ ابرار ان ناگہانی حالات میں پریشان ہے اور اپنی پریشانی کی وجہ وہ خود یہ بتلاتا ہے کہ اس سال ڈسمبر کے مہینے میں اس کو اپنی لڑکی کی شادی کرنی تھی۔ لڑکی کا رشتہ تو ایک سال پہلے ہی طئے ہوگیا تھا اب ابرار اس لیے پریشان ہے کہ وہ اپنی لڑکی کی شادی کے لیے پیسے جمع نہیں کرپا رہا ہے۔ تو وہ دسمبر تک کیسے اپنی بچی کی شادی وقت مقررہ پر کرپائے گا۔

قارئین مسلمانوں کے ہاں اگر بچت کا تصور یا فکر ہے تو وہ کس کام کے لیے؟ شادیوں کے لیے یعنی اس مقصد پر آپ چاہے جتنا خرچ کرلیں اس سے کوئی مالی منفعت نہیں ملنے والی۔ لاک ڈائون کے دوران یہاں تک کہ رمضان المبارک کے دوران بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد موبائل اور انٹرنیٹ پر کافی وقت گذارتی رہی۔ ہمارے نوجوان سوشیل میڈیا پر بھی کافی سرگرم رہے لیکن ان کی سرگرمیوں کی نوعیت زیادہ تر تفریحی تھی۔ دراصل مسلمانوں میں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اور سوچ جب بدلتی ہے تو لوگ ہر پلیٹ فارم کو اپنے فائدے اور اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ مجیش دیبا رما کی عمر 29 برس ہے اور اس کے سالے کا نام سماریش دیبارما ہے۔ جس کی عمر 41 برس ہے۔ ان لوگوں نے
youtube
پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں بتلایا گیا کہ راجستھان جیسے گرم علاقے اور صحرائی ماحول میں بھی ایک شخص نے وہاں پر سیب Apple کی فصل اگانے میں کامیابی حاصل کی تو ان دونوں نوجوانوں نے طئے کیا کہ وہ اپنے تریپورہ کے گائوں میں سیب کی فصل اگائیں گے۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے نمائندے دیب راج سے بات کرتے ہوئے مجیش اور سماریش نے بتلایا کہ یوٹیوب پر انہوں نے جب راجستھان کے ایک شخص کو سیب کی فصل اگاتے ہوئے دیکھا تو انہیں خیال آیا کہ انہیں بھی تریپورہ کے اپنے کھیتوں میں سیب کی فصل اگانے کا تجربہ کرنا چاہیے۔ ہم نے
Hybrid
سیب کی فصل اگانے کے متعلق یوٹیوب اور فیس بک پر تلاش شروع کی تو ہمیں ہری میان شرمن کے بارے میں پتہ چلا۔ یہی وہ شخص ہے جس کو ہماچل پردیش کا ایپل میان کہا جاتا ہے۔ ہری میان شرمن کون ہے اس کے متعلق انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ یہ ایک نامور ہارٹیکلچر ماہر ہیں۔ ان کا تعلق بلاسپور ہماچل پردیش سے ہے۔ انہوں نے HRMN99 نام کی ورائٹی کا سیب مارکٹ میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے ہری میان ایپل کو کسانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
قارئین تریپورہ کے ان نوجوانوں کے متعلق یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ ان لوگوں کی کاشت کاری اور فصل کے لیے نہ صرف حکومتی اداروں بلکہ بینکوں سے باضابطہ قرضہ لینے کی بھی سہولت ہے۔ آیئے اب ذرا میں پھر سے اس آٹو ڈرائیور ابرار کی بات کروں جو لاک ڈائون کے دوران آٹو بند ہوجانے سے پریشان ہے اور ترکاری کا کاروبار کر رہا ہے۔ اب اپنی بچی کی شادی کے لیے سود پر قرضہ لینے کے بارے میں سونچ رہا ہے۔

طویل مدتی لاک ڈائون نے یہ بات بھی فاش کردی کہ ابتدائی مراحل میں جو ادارے، افراد اور تنظیمیں لوگوں کے لیے راحت رسانی کے کام انجام دے رہے تھے ایک مہینے تک مسلسل سرگرم رہنے کے بعد ان میں سے بہت سارے لوگوں کو مالی وسائل ختم ہونے کے سبب کھانے کھلانے اور راشن کی تقسیم کی سرگرمیوں کو محدود کردینا پڑا۔ کیوں نہ ہر فرد کو اس بات کی ترغیب دلائی جائے کہ مالی وسائل اکٹھا کرنے کے لیے ہر ایک کو سنجیدہ ہونا ہوگا اور ساتھ ہی غیر ضروری اور غیر پیداواری کاموں کو ترک کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ کیونکہ ناگہانی حالات اطلاع دے کر نہیں آتے؟ تو کیوں نہ ہم میں سے ہر فرد اپنی ذات اور اپنی استطاعت کے مطابق کم سے کم اپنے لیے اس طرح کے ناگہانی حالات کے لیے ہنگامی منصوبہ تیار کرے۔

مذہب اسلام نے زکوٰۃ کو ہر صاحب استطاعت پر فرض کرتے ہوئے مسلمانوں میں معاشی مساوات کو یقینی بنانے کی راہ ہموار کی ہے۔ لیکن زکوٰۃ کی غیر ذمہ دارانہ نکاسی سے ہمیں خاطر خواہ مثبت نتائج نظر نہیں آرہے ہیں۔ ورنہ اگر ہم زکوٰۃ دینے والے اور زکوٰۃ لینے والے پورے دل جمعی سے کام کریں تو زکوٰۃ لینے والے زکوٰۃ دینے والے بن سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں کس کو بدلنا ہوگا۔ حکومت نہیں، پالیسی نہیں، پروگرام نہیں، صرف ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اگرہم اللہ رب العزت کی جانب سے دی گئی دماغ کی نعمت کو صحیح استعمال کریں اور دعا کریں کہ ائے مالک دوجہاں ان لوگوں کا راستہ چلا جن پر تونے انعام کیا۔ یقینا ہم سمجھ سکتے ہیں اور ہمارے لیے ہی سمجھنا آسان ہوگا کہ ہمیں قرضہ لینا ہے تو شادی کے لیے قرضہ لیں گے یا کاروبار اور تعلیم کے لیے۔ جب رقم نہ ہو تو تعلیم چھوڑی جاتی ہے تو مالی استطاعت نہ ہو تو شادی کو کم خرچ والی کیوں نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ سوچیے۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com