حکومت پھر نفاق کے ایجنڈہ پر

   

حکومت پھر نفاق کے ایجنڈہ پر
لوک سبھا انتخابات 2019 کے بعد مرکز میںنریندر مودی حکومت اپنی دوسری معیاد کا کام کاج سنبھال چکی ہے ۔ پورا سرکاری ڈھانچہ وجود میں آچکا ہے ۔ وزارتوں کی تشکیل ‘ نو منتخب ارکان کی حلف برداری مکمل ہوچکی ہے اور پارلیمنٹ نے آج سے باضابطہ کام کاج کا آغاز کردیا ہے ۔ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے پارلیمنٹ کے مشترکہ سشن سے خطاب کیا ۔ اس میں انہوں نے حکومت کی کامیابیوں اور اس کے مقاصد و نشانوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ سارے خطاب میں جہاں حکومت کی ستائش اور خود ستائی زیادہ دیکھنے میں آئی ہے وہیں اس ملک کی اقلیتوں کیلئے اس میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ اگر اقلیتوں کا کوئی راست یا بالواسطہ تذکرہ ہے تو صرف تین طلاق اور نکاح حلالہ جیسے متنازعہ مسائل ہی پر زور دیا گیا ہے ۔ مودی حکومت نے جس طرح سے سابقہ معیاد میں ان متنازعہ مسائل کو ہوا دیتے ہوئے ایک طرح کی نفاق کی پالیسی اختیار کی تھی اب بھی وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتی ہے ۔ صدر جمہوریہ کے خطاب سے ہی مودی حکومت نے یہ واضح اشارہ دیدیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایک مثالی اکثریت حاصل ہونے کے بعد بھی ملک کی ترقی اور استحکام کے ایجنڈہ پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے نفاق کے ایجنڈہ ہی کو ترجیح دے گی ۔ تین طلاق اور نکاح حلالہ جیسے مسائل پر سیاست کریگی تاکہ مسلمانوں میں جو بے چینی اس کی سابقہ معیاد میں پیدا ہوئی تھی اس کو برقرا ر رکھا جائے ۔ مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس مزید گہرا ہوسکے اور حقیقی مسائل سے ملک کے عوام کی توجہ ہٹ جائے تاکہ حکومت اپنے پوشیدہ ایجنڈہ پر مزید توجہ کے ساتھ کام کرسکے اور اس ملک میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں نراج اور بے چینی کی کیفیت زیادہ ہو۔ حکومت نے صدر جمہوریہ کے خطاب میں جتنا زور تین طلاق اور نکاح حلالہ جیسے مسائل پر دیا ہے اس قدر زیادہ زور نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر نہیں دیا گیا ہے ۔ اتنا زور ملک کی معیشت کو آگے بڑھانے پر نہیں دیا ہے اور دیگر مسائل بھی توجہ کے طالب رہ گئے ہیں۔ حکومت کے سامنے صرف سیاسی مفادات کی اہمیت واضح ہوگئی ہے ۔
جہاں تک تین طلاق اور نکاح حلالہ کا مسئلہ ہے یہ ایسے مسائل ہیں جن کا صرف چند فیصد مسلم خواتین سے تعلق ہے اور اس کے حل کی بھی اسلامی قوانین اور شرعی حدود میں بہترین سہولت اور گنجائش موجود ہے ۔ تاہم حکومت اس کے ذریعہ مسلم خواتین سے ظاہری ہمدردی کے نام پر ان سے دشمنی کر رہی ہے ۔ انہیں مزید شہ دیتے ہوئے ان کا استحصال کرنا چاہتی ہے ۔ مسلمانوں کی صفوں میں بے چینی اور اختلافات کو ہوا دینا چاہتی ہے ۔ ان میں عدم تحفظ کے احساس کو مزید شدت کے ساتھ ابھارنا چاہتی ہے ۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ منافرت کا تدارک کرنے کی بجائے بالواسطہ طور پر اس کو ہوا دینا چاہتی ہے ۔ مسلم خواتین کے اس ملک میں بے شمار مسائل ہیں جن پر حکومت اگر توجہ کرے تو مسلم خواتین کی حالت کو سدھارا جاسکتا ہے ۔ ان میں اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم خواتین کیلئے علیحدہ تعلمی ادارے قائم کئے جائیں۔ انہیں ان اداروں میں پیشہ ورانہ تعلیم کی سہولت فراہم کی جائے ۔ ان کیلئے سماج میں ایک معزز مقام حاصل کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ انہیں روزگار سے جوڑنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ گھریلو صنعتوں کو ترقی دی جائے ۔ان سب کے علاوہ سماج میں خواتین کے ساتھ جو مظالم ہو رہے ہیں ان کی روک تھام کیلئے حکومت کو ایک جامع اور مبسوط حکمت عملی کے ساتھ توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ہندوستان بھر میں دل دہلادینے والے واقعات پیش آ رہے ہیںجہاں معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی کی جا رہی ہے ‘ خواتین کو برہنہ گشت کروایا جا رہا ہے ۔ انہیں قتل کیا جا رہا ہے ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے غیرانسانی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ حکومت ان پر قابو پانے کیلئے تیار نظر نہیں آتی ۔ اس تعلق سے حکومت نے کوئی منصوبہ ملک یا پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا ہے ۔ اس کی بجائے حکومت محض تین طلاق اور نکاح حلالہ جیسے مسائل کا استحصال کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی راہ پر ہی گامزن ہے ۔ بحیثیت مجموعی صدر جمہوریہ کا جو خطاب حکومت نے تیار کیا ہے وہ عام طور پر اس ملک کے تمام عوام کیلئے اور خاص طور پر ملک کی اقلیتوں اور مسلمانوں کیلئے انتہائی مایوس کن ہی کہا جاسکتا ہے ۔