حکومت کو ہوش کب آئیگا ؟

   

سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا
دن میں اگر چراغ جلائے تو کیا کیا
حکومت کو ہوش کب آئیگا ؟
ملک بھر میں کورونا کی تباہی کے باوجود مرکزی حکومت حرکت میں آنے اور درکار اقدامات کرنے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ اس کا وجود ہی تقریبا بے معنی ہوکر رہ گیا ہے اور صرف کاغذی اعداد و شمار کے ذریعہ حکومت اپنے اقدامات کا دعوی کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ ملک کے کئی دواخانوںمیں لوگ آکسیجن کی قلت کی وجہ سے فوت ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلسل گھر اجڑ رہے ہیں۔ کورونا کے مریض ایک ایک سانس کیلئے پیر گھسنے پر مجبور ہوگئے ہیں ان سب کے باوجود بھی نریندر مودی حکومت کچھ بھی کرتی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ اب تو ملک کی عدالتیں بھی حکومت کی سرزنش کرنے لگی ہیں۔ آج ایک بار پھر دہلی ہائیکورٹ نے مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا ہے اور کہا کہ اب تو پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے ۔ اب بہت ہوچکا ہے اور حکومت کو اب کسی بھی حال میںکسی بھی طرح سے آکسیجن کی سربراہی کو یقینی بنانا ہی ہوگا ۔ دارالحکومت دہلی میںآج ایک ہی دن میںایک دواخانہ میںصرف 80 منٹ تک آکسیجن کی سپلائی رک گئی جس کے نتیجہ میںایک ڈاکٹر سمیت آٹھ افراد زندگی کی جنگ ہار گئے ۔ عدالت نے اس کا بھی نوٹ لیا اور کہا کہ اب عدالت آنکھیں بند کئے نہیںرہ سکتی ۔ مرکزی حکومت کو کسی بھی طرح سے آج ہی دہلی کوالاٹ کردہ آکسیجن کا کوٹہ فراہم کرنا ہوگا اور ٹینکرس بھی مرکز ہی کو فراہم کرنے ہونگے ۔ عدالتی احکامات سے صورتحال کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ویسے تو سوشیل میڈیا پر مسلسل اس تعلق سے تفصیلات اور حقائق کو پیش کیا جا رہا ہے لیکن ہمارا نام نہاد نیشنل میڈیا حکومت کی غلامی اور تلوے چاٹنے ہی میں مصروف ہے ۔ آج بھی اسے ملک کے عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کا کوئی احساس نہیں ہو رہا ہے اور نہ ہی حکومت کو خواب غفلت سے جگانے کیلئے وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کو تیار ہے ۔ وہ صرف حکومت کو عوام کی تنقیدوںسے بچانے اور حکومت کے زبانی جمع خرچ کے دعووں سے ہی عوام کو بہلانے کی کوششوں میںمصروف نظر آتا ہے ۔ عدالتیں تاہم حکومت سے مطمئن نہیں ہیں اور انہوں نے مسلسل حکومت کی اس تعلق سے سرزنش بھی کی ہے ۔
آج سارا ملک ایک آواز میں حکومت کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عوام کو پیش آنے والی مشکلات اور دشواریوں کو اجاگر کیا جا رہا ہے ۔ دواخانوںکے اندر اور باہر کی صورتحال عوام کے سامنے پیش کی جا رہی ہے اس کے باوجود حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ جو الزامات حکومت پر لگے ہیں ان کے مطابق وہ انتہائی سنگین قومی بحران کے دور میں بھی سیاست کرتی نظر آر ہی ہے ۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیںہیں ان میں سے بعض کو ان کی ضرورت سے زیادہ آکسیجن سربراہ کی جا رہی ہے ۔ جہاں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں ان کو معلنہ کوٹہ تک بھی آکسیجن فراہم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلہ میں نت نئے بہانے اور عذر پیش کئے جا رہے ہیں۔ کاغذات پیش کرتے ہوئے آکسیجن کا کوٹہ الاٹ کرنے کے دعوے ہو رہے ہیںلیکن حقیقت میں یہ آکسیجن فراہم نہیں کی جا رہی ہے ۔ صرف زبانی جمع خرچ کے بہلاووںسے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حکومت کی اس لا پرواہی اور مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میںیومیہ ہزاروں افراد آکسیجن کی قلت اور کورونا کی شدت کی وجہ سے زندگی کی جنگ ہار رہے ہیں۔ ہزاروں گھر اجڑ رہے ہیں۔ زندگیاں ختم ہو رہی ہیں ۔ اس کے باوجود حکومت اس کا نوٹ لینے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی کسی طرح کے عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ مسلسل بے حسی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔
کم از کم اب جبکہ عدالتیں مسلسل حکومت کو پھٹکار رہی ہیں اور سخت ریمارکس کرنے پر مجبور ہوگئی ہیںحکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو فوری حرکت میںآنا چاہئے ۔ اگر وہ خود اپنے طور پر کوئی جامع اور موثر منصوبہ تیار کرنے میںناکام ہو رہی ہے تو اسے اپوزیشن اور دوسروں کی مدد لینے سے گریز نہیںکرنا چاہئے ۔ جو مشورے اب تک دئے گئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے مطابق اقدامات کرنے چاہئیں۔ سیاسی اجارہ داری کو ترک کرتے ہوئے اقتدار کے زعم کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالتوں کی ہدایات کے بعد سیاسی سوچ کو ترک کرتے ہوئے قومی مفاد اور ملک کے عوام کی زندگیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک جامع اور موثر حکمت عملی بناتے ہوئے اقدامات کاعملی طور پر اور انتہائی سنجیدگی سے آعاز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ممکنہ حد تک راحت فراہم کی جاسکے ۔
آج انتخابی نتائج
ملک کی پانچ ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج کا آج اعلان ہوگا ۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد یہ واضح ہوجائیگا کہ عوام نے کس پارٹی پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور کسے اپنے ووٹوں کے ذریعہ سبق سکھانے کی کوشش کی ہے ۔ جو ایگزٹ پولس سامنے آئے ہیں وہ ملے جلے دکھائی دے رہے ہیں۔ ویسے تو بیشتر ایگزٹ پولس میں یکسانیت ہی پائی جاتی ہے لیکن کچھ ایگزٹ پولس میںمختلف رائے کا بھی اظہار کیا جارہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ایگزٹ پولس پوری طرح سے ہمیشہ درست ثابت نہیں ہوئے ہیں اور ان میںالٹ پھیر بھی حقیقی نتائج میں دیکھنے میں آیا ہے ۔ جو حقیقی نتائج ہیں وہ کل ملک کے عوام کے سامنے آجائیں گے اور یہ واضح ہوجائیگا کہ عوام نے کس پارٹی کو اپنے ووٹ سے اقتدار بخشا ہے اور کسے مسترد کردیا ہے ۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے ہیں ان کے نتائج سارے ملک کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان نتائج سے ملک میںمستقبل کے سیاسی سفر کی راہ طئے ہوگی ۔ عوام کے سامنے ایک مثال قائم ہوگی کہ کن حالات میں کس پارٹی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انتخابات محض طاقت کے بل پر لڑے گئے ہیں اور خاص طور پر بی جے پی نے مرکز میں اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے ریاستوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے ۔ ریاستی مسائل اور قائدین کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے قومی قائدین کے بھروسے پر انتخاب لڑا ہے ۔ حقیقی مسائل کو یکسر نظر انداز کردیا گیا اور انہیں کسی بھی پلیٹ فارم میں پیش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ ریاستی عوام کیلئے کوئی منصوبہ یا پروگرام بھی پیش نہیںکیا گیا تھا ۔ا ب دیکھنا یہ ہے کہ ان ریاستوں کے عوام نے اس کی بات پر کس حد تک بھروسہ کیا ہے یا کس حد تک اختلاف کیا ہے ۔ ایگزٹ پولس کے نتائج کے باوجود تمام جماعتیں عملا سانس روکے حقیقی نتائج کی منتظر ہیں۔