حکومت کی ناقص معاشی پالیسی مہنگائی کی جڑ

   

پی چدمبرم

سابق مرکزی وزیر فینانس

ہم نے 1947ء میں انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور ہم ایک خودمختار ملک کے باشندے ہیں۔ ہندوستان ایک خودمختار ملک ہے۔ ہماری حکومت یعنی حکومت ِ ہند بھی خود مختار ہے اور اسے جنگ کرنے ، امن قائم کرنے ، عالمی سطح کے معاہدوں اور قراردادوں پر دستخط کرنے اور ان کا حصہ بننے، قرض لینے کے ساتھ ساتھ پیسہ بنانے باالفاظ دیگر اپنی کرنسی نوٹ چھپوانے اور سکے جاری کرنے کا اختیار ہے۔ اس خودمختاری کے علاوہ کئی ایسے ادارے ہیں، جنہیں مالی اختیارات کا حامل بنایا گیا۔ اگر راقم اس بارے میں لکھتا جائے تو کافی صفحات درکار ہوں گے۔ اس لئے اپنے مضمون کو طوالت دینے سے بچتے ہوئے میں آپ کو مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جن اداروں کو خودمختاری حاصل ہے یا وہ بااختیار ہیں، ان میں سنٹرل بینک آف انڈیا اور حکومت ہند کی ملکیت والی بینکس مثال کے طور پر اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) شامل ہیں۔ اس دیباچہ کی اس لئے ضرورت پڑگئی کیونکہ ہندوستان میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ مالی طور پر بااختیار ادارے فی الوقت ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اقدامات نے عوام کو برہم کردیا ہے۔ جبکہ حکومت ایسا لگتا ہے کہ دوسرے انداز سے سوچتی ہے ۔ اس کے خیال میں یہ مسئلہ بہ آسانی حل ہوجائے گا۔ میں یہاں مہنگائی کا حوالہ دوں گا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے، جو تمام جمہوری حکومتوں کیلئے درد ِ سر بنا رہتا ہے۔
لرزہ دینے والے حقائق
قومی دفتر برائے اعداد و شمار کی جانب سے 12 جولائی 2021ء کو جاری کردہ صحافتی اعلامیہ کے مطابق ہندوستان کا سی پی آئی (کنزیومر پرائس اِنفلیشن) حکومت اور آر بی آئی کی جانب سے متعین کردہ تمام حدود کو پھلانگ چکا ہے۔ حکومت کا جو رینج ہے ، وہ 4% ہے۔ اس میں 2% بڑھ یا کم ہوسکتے ہیں، لیکن فی الوقت کنزیومر پرائس اِنفلیشن 6.23% بتایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شہری سی پی آئی جو مئی میں 5.91% تھا، جون میں بڑھ کر 6.3% ہوگیا۔ مہنگائی صرف ایک ماہ میں 5.5% سے بڑھ کر 5.8% ہوگئی۔ اگر ہم اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ غذائی افراط یا مہنگائی بڑھ کر 5.58% ہوگئی ، دالوں کی مہنگائی 10.01% ہوگئی۔ پھلوں کی مہنگائی میں 11.82% کا اضافہ دیکھا گیا۔ حمل و نقل کے شعبہ میں افراط 11.56% پر آگیا۔ فیول اور بجلی کے شعبہ میں 12.86% مہنگائی ریکارڈ کی گئی۔ تیلوں اور فیاٹس کی مہنگائی 34.7% پر دیکھی گئی۔ میرے خیال میں یہ مہنگائی طلب میں اضافہ کے باعث نہیں بلکہ اس کے متضاد نجی استعمال کی طلب بہت کم ہے۔ یہ مہنگائی عوام کے ہاتھوں بہت زیادہ رقم یا اضافی لکویڈیٹی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ حکومت کی غلط پالیسیوں بالخصوص اس کی محاصل سے متعلق پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

آر بی آئی کا تجزیہ
جولائی 2021ء میں آر بی آئی نے ایک بلیٹن جاری کیا۔ اس بلیٹن میں آر بی آئی نے مدافعتی طریقہ اختیار کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ غذائی اشیاء اور فیول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن پچھلے سال اسی مدت کے دوران اس میں کمی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سی پی آئی کی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ مہنگائی کا اثر ملبوسات اور فٹ ویئرس (جوتے چپلوں) ، گھریلو ساز و سامان اور خدمات کے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبہ میں بھی دیکھا گیا۔ یہ بھی بطور خاص نوٹ کیا گیا کہ ملک میں پٹرول کی قیمت فی لیٹر 100 روپئے سے زائد ہوگئی جبکہ ملک کے مختلف مقامات پر ڈیزل کی قیمت بھی پٹرول کی قیمت کا مقابلہ کررہی ہے۔ کئی مقامات پر ڈیزل 93.52 روپئے فی لیٹر فروخت کیا جارہا ہے۔ اسی طرح کیروسین اور ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبہ میں (اِن پٹ کاسٹ) بڑھ گئی ہے۔ تمام ڈیٹا پوائنٹس ایک سمت میں ہیں اور وہ ہے حکومت کی ناقص ٹیکس پالیسیاں۔ ہمارے ملک میں ایسے تین محاصل یا ٹیکس ہیں جو شدید نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ پہلا ٹیکس وہ ہے، جو پٹرول اور ڈیزل پر عائد کیا گیا ہے۔ خاص طور پر مرکزی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر جو ٹیکس عائد کئے ہیں، وہ بہت نقصان دہ ہیں۔ ٹھیک ہے! ہم پٹرول اور ڈیزل پر سنٹرل اکسائیز اور اسٹیٹ اکسائیز کی اجازت دے سکتے ہیں کیونکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو آمدنی درکار ہوتی ہے، لیکن حد سے زیادہ محاصل یا ٹیکسوں کو منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مرکزی حکومت نے پٹرول پر فی لیٹر جو سیس یا ٹیکس عائد کیا ہے، وہ 33 روپئے ہے جبکہ حکومت نے ڈیزل پر فی لیٹر 32 روپئے ٹیکس عائد کرکے عوام کو پریشان کردیا ہے۔ ان محاصل کے ذریعہ مرکزی حکومت اندازاً 4 لاکھ 20 ہزار کروڑ روپئے سالانہ حاصل کررہی ہے۔ صرف اور صرف پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پر محاصل عائد کرتے ہوئے حکومت اس قدر زیادہ آمدنی حاصل کررہی ہے اور یہ تمام رقم اپنے لئے رکھ رہی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں حکومت عوام پر بوجھ پر بوجھ عائد کررہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو محاصل یا سیس عام طور پر مخصوص مقاصد کیلئے اور ایک مخصوص مدت تک عائد کئے جاتے ہیں، لیکن اب تمام حدود حکومت پار کرچکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل پر عائد ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقومات کا صحیح طور پر استعمال نہیں ہورہا ہے۔ ہم اسے حکومت کی بدترین لالچ اور عوام کا استحصال قرار دے سکتے ہیں۔
دوسرے ٹیکس کی جب بات آتی ہے تو وہ ہے بہت زیادہ امپورٹ ڈیوٹیز۔ 2004ء میں اس تعلق سے جو شروعات کی گئی تھی یا جس رجحان کا آغاز کیا گیا تھا، موجودہ حکومت نے اس رجحان کو تبدیل کرتے ہوئے کئی ایک اشیاء پر امپورٹ ڈیوٹیس (درآمداتی فیس) میں غیرمعمولی اضافہ کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی اہم اشیاء کی قلت پیدا ہوئی یا پھر ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر پام آئیل، دالیں اور کئی گھریلو اشیاء وغیرہ۔ ان تمام کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ تیسرا ٹیکس جو بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا، وہ جی ایس ٹی کی غیرمعمولی شرح ہے۔ مختلف اشیاء پر جی ایس ٹی کی شرح مختلف رکھی گئی ہیں۔ عام طور پر جو اشیاء بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہیں، جیسے پروسیس فوڈ، دیگر غذائی اشیاء ، سامانِ سجاوٹ، گھریلو ساز و سامان وغیرہ وغیرہ ان تمام اشیاء پر مرکزی حکومت نے 12% یا 18% جی ایس ٹی کی شرح مقرر کی ہے۔ ہم نے سطور بالا میں جن ٹیکسوں، محاصل، امپورٹ ڈیوٹیز اور جی ایس ٹی کا ذکر کیا ہے، وہ بالواسطہ محاصل ہیں اور یہ عوام کیلئے بہت نقصان دہ ہیں۔ خاص طور پر غریب ان محاصل کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ حکومت اس بات کو مکمل طور پر نظرانداز کررہی ہے کہ ان محاصل کے نتیجہ میں قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے اور اس سے شہریوں کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر فیول کی قیمتوں میں اضافہ کو لیجئے۔ اس کا اثر بالخصوص انسانی سرگرمیوں سفر، حمل و نقل اور زرعی شعبہ پر پڑ رہا ہے ۔ جہاں تک زرعی شعبہ کا سوال ہے، اس میں ٹریکٹرس اور پمپس کے ذریعہ ڈیزل کا استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح صنعتوں میں بجلی کا استعمال عام ہے۔ خدمات کے شعبہ میں ڈیلیوری اہمیت رکھتی ہے اور بجلی گھروں کیلئے ضروری ہے۔ خود اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے اس بات کا انتباہ دیا ہے کہ فیول پر جو مصارف بڑھ گئے ہیں، اس کے نتیجہ میں صحت، کھانے پینے کی اشیاء، کرانہ سامان اور دوسری خدمات کے مصارف میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایس بی آئی کے محققین نے یہ بھی پایا کہ بینک ڈپازٹس میں قابل لحاظ حد تک کمی آئی ہے۔ عوامی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عوام مقروض ہوگئی ہے، مالیاتی بچت میں کمی آئی ہے۔ ان محققین نے تیل کی قیمتوں میں فوری کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس وصولی میں معقولیت پیدا کرتے ہوئے قیمتوں میں کمی کی جاسکتی ہے۔ ان لوگوں نے حکومت کو انتباہ دیا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر معیشت کو پٹری پر لانے میں تاخیر ہوگی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت ، عوام کے ساتھ ’’مجھے پرواہ نہیں‘‘ والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ ٭