حکومت کی ہٹ دھرمی کا سال

   

اگر کبھی آپ بھول کر بھی خیال ترک جفا کریں گے
وہ لمحے آ آ کے یاد مجھ کو وفا کے طعنے دیا کریں گے
حکومت کی ہٹ دھرمی کا سال
مرکز کی نریندرمودی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے ہر مسئلہ پر اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کو بھی طویل دیا جارہا ہے۔ اب تک بات چیت کے 8 دور ہوچکے ہیں مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، تعطل برقرار ہے۔ کسانوں نے قوانین کو واپس لینے تک وہ اپنے گھر واپس نہ ہونے کا عہد کیا ہے۔ ’’آپ قانون واپس لیں ہم گھر واپس ہوں گے‘‘ کے نعرے کے ساتھ احتجاجی کسان دہلی جانے والی تمام شاہراہوں کی سرحدوں پر جمع ہیں۔ شدید سردی، بارش کی پرواہ کئے بغیر ان احتجاجی کسانوں کا واحد مطالبہ ہیکہ حکومت اپنے 3 سیاہ زرعی قوانین کو واپس لے، 8 ویں دور کی بات چیت میں بھی یہی مطالبہ دہرایا گیا لیکن حکومت کی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ اب 15 جنوری کو دوسرے مرحلہ کی بات چیت کی جائے گی۔ سوال یہ ہیکہ جب مذاکرات کا 8 واں مرحلہ بھی ناکام رہا تو آئندہ ہونے والی بات چیت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ تاہم کوششوں کو جاری رکھنے سے کچھ نہ کچھ راہ نکالی جانے کی امید پیدا ہوتی ہے۔ کسانوں کے احتجاج کا ایک اور قانونی نکتہ سامنے آیا ہے کہ زرعی معاملوں میں مرکز کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ کیوں سپریم کورٹ کے مختلف احکامات کی روشنی میں زرعی معاملے ریاستوں کا موضوع ہوتے ہیں۔ لہٰذا مرکز کو چاہئے کہ وہ زراعت کے بارے میں فیصلہ سازی کا عمل ریاستوں کے سپرد کردے۔ یہاں یہ بات نوٹ کی جارہی ہیکہ مرکز کی مودی حکومت اس مسئلہ کو حل کرنا ہی نہیں چاہتی اور نہ ہی کوئی دوٹوک فیصلہ سنارہی ہے۔ اگر حکومت اپنی ضد پر قائم ہے تو اسے بات چیت کے لئے کسانوں کو مدعو کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 8 ویں دور کی بات چیت کے دوران احتجاجی کسانوں کے نمائندوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈس تھامے مظاہرہ کیا۔ ان پلے کارڈس پر ’’کرو یا مرو‘‘ لکھا تھا۔ ملک میں کوروناوائرس کی وبا کے درمیان سرحدوں پر کسانوں کی بڑی تعداد جمع ہونا ان کی صحت کیلئے نقصاندہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ سپریم کورٹ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ کورونا کی وجہ سے احتجاجی قانون میں بھی یہ وبا پھیل سکتی ہے۔ کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے جو ہلچل مچی ہے اس سے ملک کا سیاسی پارہ بھی اپنے عروج پر پہنچ رہا ہے۔ بی جے پی کی سیاسی ہٹ دھرمی اور حکومت کے مغرور رویہ نے عدم استحکام کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ اگر حکومت دانشمندانہ قدم اٹھا کر اس ملک کے عوام کی بڑی تعداد کی تشویش کو دور کرتی ہے تو یہ ایک اچھی بات ہوگی۔ حکومت اپنی طاقت کا استعمال کرکے صورتحال بگاڑنے کے بجائے کوئی اطمینان بخش قدم اٹھائے۔ حکومت کی ہی یہ غلطی ہیکہ اس نے جب زرعی قوانین تیار کئے تھے انہیں منظور کرنے سے قبل ان پر غوروخوض نہیں کیا اور ان قوانین پر ماہرین و اپوزیشن قائدین کے ساتھ مشاورت نہیں کی۔ حکومت نے جس طرح زرعی قوانین کو منظور کرانے میں عجلت سے کام لیا اور ابتداء میں غلط قدم اٹھایا تھا اب اپنی بات کو منوانے کے لئے بھی وہ کسانوں سے مناسب طریقہ سے رجوع نہیں ہورہی ہے۔ قوانین میں ترمیم کرنے پر غور کرے تو مسئلہ نرم پڑجائے گا۔ حکومت کو ترمیمات کی پیشکش کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ کسانوں کے اندیشوں کو دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مودی حکومت اپنی مرضی کے مطابق قوانین بنا کر اگر کسانوں کو معاشی طور پر ضرب پہنچائے گی تو احتجاجی کسانوں کو راضی کرانا مشکل ہے۔ کسان یونینوں نے اپنا موقف سخت کرلیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہیکہ بھاری اکثریت اور خط اعتماد کے ساتھ منتخب ہونے والی حکومت کو قوانین منظور کرانے کا حق ہے۔ اس طرح قوانین کی مخالفت کرنا بھی کسانوں کا جائز حق ہے لیکن حکومت اور کسان اپنے اپنے حق کے حوالہ سے اس ملک کے عوام کیلئے سنگینیاں پیدا کرنے اور انسانی بحران کے ساتھ غذائی اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ کارپوریٹ گھرانے اپنے مذموم عزائم کے لئے کسانوں کوا پنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔
پرنب مکرجی کی یادداشت پر مبنی کتاب
سابق صدرجمہوریہ پرنب مکرجی کی یادداشت پر مبنی کتاب ان دنوں سیاسی حلقوں میں موضوع بحث ہے۔ کانگریس کی سیاسی بدانتظامی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کی طاقت اور کمزریوں پر بھی اظہارخیال کیا۔ تلنگانہ کے قیام میں کانگریس کے رول اور خود اپنے اور صدارت میں اس نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کی منظوری دینے کا اعزاز سمجھنے والے پرنب مکرجی نے اپنی ہی پارٹی کانگریس کی کئی خامیوں کی نشاندہی کی ہے لیکن کانگریس قائدین صدرجمہوریہ مرحوم کی اس یادداشت پر مبنی کتاب پر فوری تبصرہ سے گریز کیا۔ جس پارٹی کے ساتھ انہوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ گذارا اس کی باتوں اور تنقیدوں میں بہت کچھ حقیقت دکھائی دیتی ہے۔ کانگریس پارٹی کو اپنی سیاسی سوچھ بوجھ میں کمی کا جائزہ لینے کی ضرورت پر توجہ دلائی گئی ہے۔ سابق صدرجمہوریہ کا تنقیدی نکتہ نظر کانگریس کو خوداحتسابی کی دعوت بھی دیتا ہے۔ انہوں نے اپنی یادداشت کے گوشے سے ایک نکتہ یہ بھی ظاہر کیا کہ ان کے صدرجمہوریہ بن جانے کے بعد کانگریس کی قیادت سیاسی توجہ سے محروم ہوگئی جبکہ سونیا گاندھی پارٹی امور سے نمٹنے سے قاصر دکھائی دینے لگی۔ صدرجمہوریہ مرحوم کی کتاب “The Presidential Year 2012-2017” میں درج کی گئی یادداشت بعض سیاستدانوں کیلئے تکلیف دہ بھی ہوسکتی ہیں خاص کر کانگریس کے کئی قائدین شاید کتاب سے مسلسل پرہیز کریں گے۔