حکومت کے غلط کامتعریف کرنے والے حرکت میں آگئے

   

پی چدمبرم

آئی پی ایل 2023 کا آپ جائزہ لیں اور اس کے 5 سرفہرست یا ٹاپ باولرس (گیندبازوں) پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں چار اسپنرس، راشد خان، وائی چاہال، پیوش چاولہ اور ارون چکرورتی شامل ہیں۔ کسی بھی شخص کے لئے یہ یقینا حیرت کی بات ہوگی کیونکہ ہر بلے باز (بیاٹر) کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر باولر کی پٹائی کرے۔ بیاٹرس خاص طور پر اسپن باولرس کی بری طرح پٹائی کرتے ہیں۔ ان کے گیندوں پر اس قدر زور دار شاٹس لگاتے ہیں کہ بار بار گیند گراؤنڈ کے باہر جاتی ہے۔
بہرحال آئی پی ایل سے کچھ سیکھتے ہوئے آجکل موجودہ بی جے پی اور اس کے تحت کام کرنے والے اداروں میں Spin Doctors یعنی ترجمانوں اور وہ بھی ایسے ترجمانوں کی زبردست مانگ ہے جو حکومت کی ناکامیوں کو کامیابیوں اور کارناموں کی شکل میں پیش کرے ساتھ ہی عوام میں بی جے پی حکومت کے بارے میں پائے جانے والے غلط تاثرات کو دور کرے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 19 مئی 2023 کو ریزروبینک آف انڈیا نے اعلان کیا کہ وہ 2000 کی کرنسی نوٹوں کو بازار سے واپس لے گی یعینی اس مرتبہ 2000 کی کرنسی نوٹ کا چلن بند کردے گی۔ واضح رہے کہ 2016 میں بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے ہزار اور پانچ سو کی کرنسی نوٹوں کے چلن کو بند کرنے نوٹ بندی نافذ کردی۔ ان کی قانونی حیثیت یا قدر بھی نہیں رہے گی۔ ایک اور دلچسپی کی بات آپ کو بتادیں کہ حکومت اور آر بی آئی کی ہاں میں ہاں ملانے والوں نے یہ بھی دلیل پیش کی کہ نومبر 2016 میں بھی جو اعلامیے اور سرکیولرس جاری کئے گئے تھے ان میں بھی لفظ ’’نوٹ بندی‘‘ استعمال نہیں کیا گیا تھا بلکہ دستبرداری کا لفظ استعمال میں لایا گیا تھا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نومبر 2016 میں حکومت نے نہ صرف 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کی بلکہ بڑی خاموشی سے 2000 کے کرنسی نوٹ بھی متعارف کروائے۔ حکومت کے موقف کی بھرپور مدافعت کرنے والوں نے 2000 روپے قدر کی کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی کے فیصلہ کو نوٹ بندی کی بجائے Remonetisation قرار دیا۔ اس طرح لوگوں کو ایک نیا لفظ سیکھنے کا موقع مل گیا۔ ویسے بھی بی جے پی حکومت میں عوام کو مسلسل نئی نئی اصطلاحات سیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہے۔ اب عوام کے ذہنوں میں یہ سوالات گردش کررہے ہیں کہ آخر حکومت نے 500 اور 1000 کی کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں بیکار کاغذ میں کیوں تبدیل کردیا اور 2000 کی کرنسی نوٹس متعارف کروائی؟ اور قدیم یا پرانے کرنسی نوٹ اس قدر کی نئی کرنسی نوٹوں سے تبدیل کیوں نہیں کئے جاسکتے حکومت نے 500 اور 1000 کی کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی کے بعد جو نئی کرنسی نوٹ متعارف کروائے چاہے وہ 500 کی نوٹ ہوں یا پھر دو ہزار کی کرنسی نوٹ ان کا رنگ ان کا ڈیزائن اور ان کا سائز یا حجم بالکل مختلف تھا ۔ ان پر جو خصوصیات یا فیچرس تھے وہ بھی بالکل نئے تھے۔ مودی حکومت نے 2016 میں نوٹ بندی کے اعلان کے وقت اس کی تین وجوہات اغراض و مقاصد بتائے تھے لیکن 2000 کی نئی کرنسی نوٹ متعارف کروانے سے ان مقاصد کی کوئی تکمیل نہیں ہوئی۔ اس طرح منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی فنڈنگ روکنا بھی نوٹ بندی کے پیچھے کارفرما وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ہے لیکن کتنی افسوس کی بات ہے کتنی بیوقوفی کی بات ہے کہ آپ نے 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹوں کے چلن پر تو پابندی عائد کردی اس کی جگہ 2000 روپے قدر والی کرنسی نوٹ متعارف کروائے اور پھر دہشت گردوں، نقلی نوٹ تیار کرنے والوں، منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر نے خوشی خوشی 2000 کی کرنسی نوٹوں کا استقبال کیا کیونکہ دو ہزار کی کرنسی نوٹوں نے ان کا کام آسان کردیا جبکہ حکومت سمجھ رہی تھی کہ اس نے بہت بڑا تیر مارا ہے۔ اب حکومت نے 2000 کی نوٹوں کے چلن پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے اس سے پہلے ہی لوگ دو ہزار کی کرنسی نوٹ استعمال نہیں کررہے تھے۔ چند دکاندار اور خدمات فراہم کرنے والے ادارہ 2000 کی نوٹ قبول کرنے کے لئے تیار تھے اور اب بھی یہی حال ہے اور ہم سب نے دیکھا کہ چند ہفتوں میں 2000 کے کرنسی نوٹ روزمرہ کے لین دین سے پوری طرح غائب ہی ہوگئے تھے اس کے باوجود ریزرو بینک آف انڈیا 2018 تک 2000 کی کرنسی نوٹوں کی پرنٹنگ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اب اس بات کا پتہ چلا ہیکہ 2000 روپے کی کرنسی نوٹوں پر مکمل کی ایک خطیر رقم بینکوں میں پڑی ہوئی ہے اور آبادی کے ایک چھوٹے سے حصہ کے ہاتھوں میں ہے۔ آخر 2000 کی کرنسی نوٹ کیوں پرنٹ کی گئیں؟ اس کا جواب حکومت کے پاس آج تک نہیں ہے۔ اب یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ آخر 2000 کی کرنسی نوٹوں کے چلن پر 2023 میں ہی پابندی کیوں عائد کی گئی۔ بینکوں کو آر بی آئی نے جو مکتوب روانہ کیا ہے اس میں بتایا گیا کہ نوٹ بندی کے فوری بعد ضرورت سے نمٹنے کے لئے 2000 کی کرنسی نوٹس پرنٹ کی گئی تھیں۔ باالفاظ دیگر معاشی ضرورت کی تکمیل کے لئے ایسا کیا گیا تھا اور چونکہ ضرورت پوری ہوگئی۔ اس لئے ان کرنسی نوٹوں کو واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر دیکھا جائے تو ملک کے عام لوگوں کو 2000 کی کرنسی نوٹوں کی کبھی ضرورت ہی نہیں رہی۔ وہ تو صرف 500 روپے کی کرنسی نوٹوں سے اپنے معاملات زندگی یا کاروباری امور چلاتے ہیں۔ آر بی آئی 2000 کی نوٹوں کے واپس لئے جانے کے بارے میں بے شمار تاویلات پیش کررہی ہے لیکن اس کی کسی دلیل میں جان نہیں ہے۔ وہ کہتی ہے کہ 2000 کی کرنسی نوٹوں کی SHELF LIFE چار پانچ سال ہوتی ہے اس لئے اسے چلن سے واپس لے لیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر 50, 30, 20,10 اور 100 روپے کے کرنسی نوٹوں کی SHELF LIFE تو بہت مختصر ہوگی جس طرح انہیں وقت بہ وقت نئی نوٹوں سے بدلا جاتا ہے اسی طرح 2000 کی نوٹوں کو بھی بدلا جاسکتا تھا۔ خیر حکومت کی مدافعت میں اترے ترجمان اس تعلق سے خود اپنی ہی جھوٹ کے جال میں پھنسے جارہے ہیں۔