حیدرآباد میں کورونا وائرس

   

سوزِ حیات مانگ غمِ جاوداں نہ مانگ
اِس جانِ مدعا سے مگر مدعا نہ مانگ
حیدرآباد میں کورونا وائرس
حیدرآباد میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد عوام میں تشویش پیدا ہونا فطری امر ہے۔ حکومت تلنگانہ کو وائرس سے نمٹنے کیلئے فوری خصوصی انتظامات کرنے ہوں گے۔ چین سے پھیلنے والا یہ وائرس اَب ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے خاصکر سعودی عرب نے عمرہ اور سیاحت کے ویزے بھی منسوخ کردیئے ہیں۔ یہ وائرس جہاں بھی پہنچا ہے وہاں عام زندگی کے تمام اُمور کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔ جن ملکوں میں اس وائرس سے اموات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ان میں چین کے بعد ایران ہے۔ ایران کے آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ساتھی کی وائرس سے موت واقع ہوئی جس کے بعد صورتحال تشویشناک ہوگئی ہے۔ایران کے بشمول تمام ملکوں نے وائرس پر فوری قابوپانے کے اقدامات پر زور دیا ہے۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس وائرس کو چین سے زیادہ دیگر ملکوں میں پھیل کر طاقتور وجان لیوا ہونے کی بات کہی ہے۔ یہ صورتحال عالمی صحت تنظیم کے لئے بھی فکر مندی کا باعث بن گئی ہے کہ ساری دنیا کی بڑی طاقتوں کو اینٹی کورونا وائرس ویاکسن بنانے اور اس ویاکسن یا ٹیکہ کو موثر بنانے پر فوری کام شروع کردینا چاہیئے۔ کئی ملکوں نے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سفر نہ کریں۔ آج ساری دنیا کو کورونا وائرس سے سب سے بڑا خطرہ پیدا ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ دنیا بھر میں معیشت گھٹ رہی ہے، صحت عامہ کیلئے یہ ایک ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے۔ حیدرآباد کے بشمول مختلف شہروں کے عوام میں صاف صفائی اور اپنے ہاتھوں کو بیکٹیریا سے صاف ستھرا رکھتے ہوئے اس وباء سے بچنے کی کوشش کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ عوام اپنے چہرے کو بار بار ہاتھوں سے صاف کرنے کا عمل روک دیں اور گرم پانی سے ہاتھوں کی صفائی کرکے استعمال کریں۔ 60 ملکوں میں پھیلا یہ وائرس جان لیوا اور خطرناک ثابت ہورہا ہے ۔ اب تک 3500افراد ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد متاثر ہونے کی رپورٹس ہیں شاید اموات کی تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے، مگر یہاں تعداد کا سوال نہیں بلکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے حکومتوںکے پاس کیا ہنگامی منصوبے ہیں یہ غور طلب ہے۔یہ وائرس اٹلی اور ایران کو بھی پریشان کررکھا ہے۔ ماہرین وبائی امراض کا کہنا ہے کہ یہ وباء پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن اس کے اثرات کے بارے میں فی الحال قطعی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ وباء کہیں جان لیوا ہے تو کہیں صرف چند لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ سانس لینے میں تکلیف، کھانسی، بلغم، بخار کے آثار دکھائی دینے پر فوری ڈاکٹر سے رجوع ہونا اور فیور ہاسپٹل میں مریضوں کے تمام معائنے کرانے کے اقدامات ضروری ہیں۔ گاندھی ہاسپٹل میں ایک سافٹ ویر انجینئر کا وائرس ٹسٹ پازیٹو پایا گیا۔ دنیا بھر میں وبائی امراض کے پھیلنے سے روکنے کے وقتاً فوقتاً کام ہوتے رہے ہیں۔ عالمی صحت تنظیم WHO کی جانب سے صحت عامہ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔انسانوں کے درمیان تیزی سے پھیلنے والا یہ وائرس 2002-03 میں پھیلے سارس وائرس سے خطرناک ہے۔ سارس وائرس 8 ماہ کے اندر 29 ملکوں میں پھیل گیا تھا لیکن کورونا وائرس صرف 12 ہفتوں میں 60 ملکوں کے عوام کو متاثر کرچکا ہے۔ کورونا وائرس سے کئی ملکوں میں سفری سرگرمیاں ٹھپ ہوگئی ہیں، تجارت بند ہے اور ساری دنیا میں برآمدات و درآمدات کا سلسلہ سُست ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسی ہنگامی صورتحال ہے جہاں کہیں بھی یہ وائرس کم درجہ کا اثر رکھتا ہے وہاں فوری طور پر اس کی روک تھام کے لئے حرکت کرنی چاہیئے۔ چونکہ حیدرآباد میں ایک ہی کیس سامنے آیا ہے کہ اس کی روک تھام اور احتیاطی اقدامات کے لئے حکومت کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ شہریوں کو بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو صاف ستھرا رکھیں اور باربار منہ پر ہاتھوں کو نہ لگائیں۔ سوشیل میڈیا پر یا دیگر ذرائع سے ملنے والی اطلاعات پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بعض مرتبہ افواہیں بھی سرگرم رہتی ہیں۔ شہریوں کو خوف زدہ ہونے کے بجائے خود کو زیادہ سے زیادہ صاف ستھرا اور محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ چہرے پر ماسک لگانا اور ہجوم والے علاقوں میں جانے سے گریز کرنا بھی ایک احتیاطی پہلو ہے۔