خاتون پہلوانوں کے احتجاج کو کچلنامودی حکومت کی بھیانک غلطی

   

روہت کمار
دہلی میں اور خاص طور پر جنتر منتر پر جمہوری انداز میں احتجاجی مظاہروں سلسلہ جاری رہتا ہے پچھلے چند برسوں سے دہلی کے مختلف مقامات پر ایسے بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوچکے ہیں اور جن لوگوں نے ان مظاہروں میں حصہ لیا یا ان مظاہروں کو قریب سے دیکھا وہ یقیناً ان میں بلند کئے جانے والے نعروں کو فراموش نہیں کر پائیں گے ۔ جس وقت 2016 میں جے این یو میں پہلا حملہ کیا گیا تب جے این یو کی مشہور دفلی والے احتجاجی مظاہروں میں انقلاب ، انقلاب ، انقلاب زندہ باد زندہ باد ، زندہ باد ، زندہ باد کے ساتھ ساتھ تاناشاہی نہیں چلے گی نہیں چلے گی نہیں چلے گی کے نعرے بلند کئے گئے پھر 2019 – 2020 میں بڑے پیمانے پر دارالحکومت میں سی اے اے / این آر سی کے خلاف احتجاج کیا گیا جس میں ایک نعرہ ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں سب بھائی بھائی اکثر گونجا کرتا تھا ۔ اسی طرح 2020-21 میں دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کا زبردست احتجاج منظم کیا گیا جس میں مختلف ریاستوں سے ہزاروں کی تعداد میں کسانوں نے شرکت کی ۔ کسانوں نے زوردار انداز میں کسان ۔ مزدور ایکتا زندہ باد کے نعرہ لگائے اور سکھوں نے جو بولے سونہال ست سری اکال کے نعرے بلند کئے ۔ ان نعروں کے نتیجہ میں مودی حکومت پر ہیبت طاری ہوگئی اور ہر نعرہ ایک مخصوص احتجاجی مظاہرہ کیلئے یادگار ثابت ہوا اور ہر نعرہ کی اپنی کچھ خوبی تھی لیکن ایک نعرہ جو یاد رکھا جائے گا وہ جنتر منتر پر 35 دنوں سے جاری خاتون پہلوانوں کے احتجاج کا نعرہ ہے ۔ افسوس صد افسوس کہ 28 مئی کو جبکہ نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح ہورہا تھا اس وقت پولیس اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں نے انتہائی بیدردی سے احتجاجی پہلوانوں اور ان کے حامیوں کو وہاں سے گھیسٹ کر گرفتار کر کے جنتر منتر کا وہ احتجاج ختم کروایا ۔
خاتون پہلوانوں کا نعرہ اس لئے یاد رہے گا کیونکہ ان لوگوں نے اس نعرہ کے ذریعہ مودی کو للکارا ہے وہ نعرہ کچھ یوں ہے ’’ جب جب مودی ڈرتا ہے ، پولیس کو آگے کرتا ہے ‘‘
اس نعرہ نے مودی حکومت کو برہم کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 28 مئی کو پولیس نے احتجاجی پہلوانوں کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا اور وہاں سے انہیں ہٹادیا ۔ پہلے تو مودی حکومت نے احتجاج کے مقام پر پولیس اور نیم فوجی فورسس کی ایک بڑی تعداد تعینات کر رکھی تھی اور وہی بڑی تعداد احتجاجی پہلوانوں کے مذکورہ نعرہ کی سچائی کا اظہار کررہی تھی ۔ جو لوگ بھی جنتر منتر پر خاتون پہلوانوں کے احتجاجی مظاہرہ کے قریب موجود تھے ان کا یہی کہنا تھا کہ جس دن نئی پارلیمنٹ کا افتتاح انجام دیا جانے والا تھا اس دن حکومت نے کم از کم 2000 سیکوریٹی عہدیداروں کو تعینات کیا تاکہ احتجاجی پہلوان نئی پارلیمنٹ تک مارچ نہ کرسکیں ۔ اتوار کو ریاست نے احتجاجی پہلوانوں کے خلاف جو کچھ بھی ظالمانہ کاروائی کی اس سے وقتیہ طور پر خاتون ریسلرس کا احتجاج تو ختم ہوا لیکن مودی نے بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کا جو نعرہ دیا تھا وہ سب سے زیادہ متاثر ہوا اس نعرہ کی تشہیر کیلئے اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی حکومت نے ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرڈالے لیکن احتجاجی خاتون پہلوانوں کے خلاف پولیس اور سیکوریٹی الکاروں کی بیدردانہ کارروائی نے مودی کے نعرہ کو کھوکھلا ثابت کر کے رکھدیا ۔ مودی نے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاو کا نعرہ دیا لیکن جنتر منتر پر اس وقت بیٹیاں محفوظ نہیں وہیں پولیس والوں نے احتجاجی بیٹیوںکو ان کے ہاتھ اور پاؤں پکڑ کر اُٹھایا اور پولیس بسوں میں بڑی بیدردی سے ٹھونس دیا ( اس موقع پر موجود ایک فوٹو جرنلسٹ نے بطور خاص نوٹ کیا کہ ساکشی ملک پر بالاخر 20 خاتون پولیس اہلکاروں نے قابو پایا ۔ ( ویسے بھی ساکشی ملک اولپمین ریسلر ہیں ) حیرت اس بات پر ہیکہ ساکشی ملک کی ماں کو بھی اُسی انداز میں پولیس بس میں سوار کیا گیا احتجاجی مقام پر دل دہلادینے والا منظر اس وقت دیکھا گیا جب ساکشی کے شوہر شاورت نے جو خود بھی مشہور و معروف پہلوان ہے پولیس کے ساتھ دھکم پیل میں اپنی اہلیہ ( ساکشی ) کو بڑی مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھا اور سیکوریٹی فورسس ساکشی کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کررہے تھے ۔ پولیس کارروائی کے اس دن کی سب سے اہم تصویر جس نے وہاں کی صورتحال کو پوری طرح واضح کیا وہ تصویر تھی جس میں ونیش پھگٹ اور ان کی بہن ترنگا لپیٹے ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے اور فوٹو فریم میں ایک پولیس والے کا جوتا بھی نظر آرہا تھا اس وقت کوئی بھی مدد نہ کرسکا لیکن 1984 کی وہ سطر لوگوں کے ذہنوں میںعود کر آتی کہ آخر آپ مستقبل کی ایک تصویر ایک خاکے خواہاں ہوں تو پھر انسانی چہرہ پر جوتے سے لات مار جانے کا ذرا تصور کیجئے یعنی ایک انسانی چہرہ پر جوتے کے نشان کا تصویر کریں ، شکر ہیکہ عملی طور پر ایسا نہیں ہوا لیکن جس طرح کے حالات جنتر منتر پر دیکھے گئے وہاں ایسا باآسانی ہوسکتا تھا ایک طرف جنتر منتر سے صرف دو کلو میٹر دور وزیراعظم نریندر مودی اپنے پارٹی ارکان پارلیمان اور وزراء کی واہ واہ لوٹ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اس نئی پارلیمنٹ میں منظور کئے جانے والے قوانین ملک کی خواتین اور نوجوانوں کیلئے نئے مواقع پیدا کریں گے دوسری طرف خاتون پہلوانوں کو پولیس بڑی بیدردی سے احتجاجی مقام سے ہٹا رہی تھی ۔ مودی جی نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کرنے کے بعد بڑے پرعزم و پراعتماد انداز میں یہ کہہ رہے تھے انڈیا اب حقیقت میں امرت کال میں داخل ہوگیا انہوں نے اپنے پارٹی ارکان پر اس بات کیلئے بھی زور دیا کہ بہترین سلوک و رویہ کی مثالیں اور نمونہ بنیں حیرت کی بات یہ ہیکہ اس موقع پر پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں برج بھوشن شرن سنگھ بھی موجود تھے جو 6 معیادوں سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے آرہے ہیں اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر بھی ہیں ان کے خلاف خاتون ریسلرس نے جنسی ہراسانی کے انتہائی سنگین الزامات عائد کئے اور جنہیں ان الزامات کے تحت اب تک گرفتار کیا جانا چاہئے تھا ۔ ایک بات ضرور ہیکہ وزیراعظم نے برج بھوشن سنگھ کے خلاف خاتون ریسلرس کے سنگین الزامات کے باوجود انہیں ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کی صدات سے ہٹایا نہ ہی پارٹی سے معطل یا برطرف کیا جو ان کا اخلاقی فریضہ تھا ۔ جنتر منتر پر جس بیدردی کے ساتھ احتجاجی خاتون پہلوانوں کو ہٹایا گیا اس کا اندازہ ان ٹریالین کے خیموں سے لگایا جاسکتا ہے جنہیں پھاڑ کر تکڑے تکڑے کردیا گیا ان خیموں میں احتجاجی ریسلرس گزشتہ 35 دنوں سے مقیم تھیں ان کے فرش ( قالینوں ) ، پانی کے کولرس دیگر سامان اور بیانرس کو وہاں سے ہٹادیا گیا تاہم ان پہلوانوں کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مودی نے پہلوانوں کے احتجاج کو کچلنے کیلئے جو حکمت عملی اپنائی وہ ہوسکتا ہے ان کی ایک بڑی غلطی ثابت ہو اور آنے والے دنوں میں جس کے خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور خواتین میں مودی کے جو چاہنے و الے ہیں وہ بھی اب ان کی تائید و حمایت کرنے کے بارے میں دو مرتبہ سوچیں گی اس لئے کہ یہ انڈیا کی ان بیٹیوں کی عزت کا معاملہ ہے جن پر ایک بااثر شخص نے جو بی جے پی کا رکن پارلیمنٹ اور اور ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کا صدر ہے ہاتھ ڈالا ہے اور وزیراعظم اس سنگین جرم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔