خبروں کو فرقہ وارانہ نظریہ سے پیش کرنا تشویشناک

,

   

تبلیغی جماعت پر میڈیا کے ایک گروہ کی خبریں مذہبی منافرت سے پْر تھیں‘ سپریم کورٹ کا احساس

ویب پورٹلس اور یو ٹیوب چیانلس کی جھوٹی خبروں سے ملک کی نیک نامی متاثر ہوگی

نئی دہلی: مرکز نظام الدین اور تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا میں چلائی گئی خبروں کے تعلق سے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ میڈیا کے ایک گروپ کی خبریں منافرت سے پر تھیں اور اس سب پر لگام لگنی چاہیئے۔ جمعیہ علما ہند، پیس پارٹی وغیرہ کی درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے خلاف فرضی خبریں چلائی گئیں اور اس سے ملک کی شبیہ داغدار ہوتی ہے۔خیال رہے کہ جمعیہ علما ہند، پیس پارٹی، ڈی جے ہلی فیڈریشن آف مسجد مدارس، وقف انسٹی ٹیوٹ اور عبد القدوس لشکر کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کی رپورٹنگ یکطرفہ تھی اور ان میں مسلم طبقہ کی غلط شبیہ پیش کی گئی تھی۔عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا اس پر لگام لگانے کے لئے آپ کے پاس کوئی نظام موجود ہے؟ آپ کے پاس الیکٹرانک میڈیا اور اخباروں کے لئے تو نظام ہے لیکن ویب پورٹل کے لئے بھی کچھ کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ بنچ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آتا کہ ہر چیز اور ہر موضوع کو فرقہ ورانہ رنگ کیوں دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ آخر سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر نگرانی کے لئے کمیشن تشکیل دینے کے وعدے کا کیا ہوا؟ اس پر کیا پیشرفت ہوئی ہے۔گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ان ٹی وی پروگراموں پر لگام لگانے کے تعلق سے کچھ نہیں کرنے پر سرزنش کی تھی، جس کے اثرات بھڑکانے والے ہوتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اس طرح کی خبروں پر لگام لگانا اسی طرح سے ضروری ہے جس طرح سے نظم و نسق کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لئے احتیاطی اقدامات اٹھانا۔ عدالت عظمی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ وئب پورٹلس اور یو ٹیوب چیانلس کی جانب سے جھوٹی خبریں نشر کی جاتی ہیں ۔ ریگولیٹری میکانزم کے فقدان کے باعث ایسا ہورہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر بغیر جانچ کے یہ سلسلہ چلتا رہا تو اس سے ملک کی نیک نامی متاثر ہوگی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ وئب پورٹلس پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے ۔وہ کچھ بھی نشر کرسکتے ہیں ۔اگر یو ٹیوب دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ کس طرح فرضی خبروں کو آزادی کے ساتط نشرکیا جاتا ہے اور کوئی بھی یو ٹیوب چیانل شروع کرسکتا ہے ۔ اس دوران سپریم کورٹ نے دہلی تشدد کے دوران احتیاطی قدم کے طور پر انٹرنیٹ خدمات کو بند کرنے کے فیصلہ کی بھی مثال پیش کی۔