خدارا جوش نہیں ہوش سے کام لیجیے

   

ظفر آغا
جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا تھا اس وقت کانپور کی ایک مسلم بستی میں بلڈوزر ایک عمارت کو زمیں دوز کر رہا تھا۔ شہر الٰہ آباد سے بھی یہ خبر مل رہی تھی کہ جلد ہی وہاں بھی بلڈوزر اپنا کام شروع کرنے والا ہے۔ یہ بات ہے 11 جولائی کی، یعنی پچھلے جمعہ کے ایک روز بعد کی جب ملک کے طول و عرض میں بعد نمازِ جمعہ مسلم احتجاج ہوا۔ آپ واقف ہیں کہ تمام عالم اسلام بشمول ہندوستانی مسلمان اہانت رسولؐ کے معاملے میں غصے سے کھول رہا ہے۔ آپ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ سفارتی سطح پر ہر مسلم ملک کے افسران نے اپنے اپنے ملک میں ہندوستانی سفیر کو بلا کر بی جے پی کے نوپور شرما اور نوین جندل نے رسول کریمؐ کی شان میں جو گستاخی کی اس پر اپنا احتجاج درج کر دیا۔ اس مسئلہ پر ہندوستان کو عالمی سطح پر خاصی بدنامی کا سامنا ہے۔ ادھر خود ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے بڑے طبقے میں اہانت رسولؐ پر غصہ پھیلا ہوا ہے۔ اسی غصے کا نتیجہ تھا کہ پچھلے جمعہ یعنی 10 جون کو بعد نماز جمعہ ہندوستانی نوجوان سڑکوں پر نکل پڑے۔ رانچی اور الٰہ آباد میں حالات کافی بگڑ گئے۔ رانچی میں دو افراد کے مارے جانے کی خبر ہے جب کہ الٰہ آباد میں توڑ پھوڑ اور ایک آدھ گاڑی کو آگ لگانے کی خبریں ہیں۔ ظاہر ہے کہ دوسرے روز اب پولیس اور سرکاری افسران کی طرف سے پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ اتر پردیش کے کچھ شہروں میں یوگی حکومت بلڈوزر کا استعمال کر نہ صرف پکڑ دھکڑ کر رہی ہے بلکہ ساتھ ہی یہ بھی پیغام دے رہی ہے کہ اگر تم ذرا بھی سر اٹھاؤ گے تو تمھارا سر کچل دیا جائے گا۔ یہ مت سوچو کہ عالم اسلام بی جے پی سے اس معاملے میں خفا ہے تو تم کو بھی وہ بچا لیں گے۔
یاد رکھیے ہندوستانی مسلمان سنہ 2014 میں نریندر مودی کی زیر حکومت اس ملک میں بے یار و مددگار ہے، لنچنگ کی زد میں ہے اور نماز و اذان سب کچھ خطرے میں ہے۔ اس وقت ملک ہندو راشٹر بن چکا ہے اور اس ہندو راشٹر میں مسلمان کی کوئی جگہ اور کچھ بھی اختیارات نہیں بچے ہیں۔ وہ اگر ذرا بھی آواز اٹھائے گا تو بی جے پی اس کا سر کچل دے گی۔ یہ ہندوستانی مسلمان کے لیے انتہائی سخت امتحان کا وقت ہے۔ اس وقت بس کسی طرح جان کی حفاظت میں ہی ہوش مندی ہے۔ سنہ 2014 سے ابھی حال تک یہ بات عموماً مسلمانوں کی سمجھ میں آرہی تھی کہ ایک چپ ہزار بلا ٹالے۔ اور وہ بہت صبر کے ساتھ مشکل ترین حالات کا سامنا کر رہا تھا۔ عموماً تمام مسلم تنظیمیں بھی اس وقت خاموش تھیں۔ کیونکہ سب کو یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ اگر مسلمان سڑکوں پر نکلے گا تو پھر ہندو تنظیمیں جواب میں ہندو مجمع اکٹھا کریں گی اور پھر مسلمان خسارے میں رہے گا۔ اگر مسلم مجمع بعد نماز جمعہ سڑکوں پر نعرۂ تکبیر لگائے گا تو دوسرے روز ہندو مجمع جئے شری رام کا نعرہ لگائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس ہندو۔مسلم تکرار میں آخر فائدہ بی جے پی کا ہی ہوگا۔
یہی سبب ہے کہ سنہ 2019 سے اب تک مسلمان خاموش رہا۔ ہر قسم کے احتجاج اور جلسے جلوس سے گریز کرتا رہا۔ لیکن پچھلے جمعہ درجنوں شہروں میں بعد نماز جمعہ مسلم جلوس نکل پڑے۔ حالانکہ دہلی میں جامع مسجد کے امام بخاری سے لے کر مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت علماء ہند اور مقامی پیش اماموں تک تمام تنظیمیں اور اہم افراد مسلمانوں کو تلقین کر رہے تھے کہ ہر قسم کے جلسے جلوس سے گریز کریں۔ پھر بھی درجنوں شہروں میں ہنگامہ ہوا۔ آخر کیوں اور کیسے! وہ کون لوگ تھے جنھوں نے پچھلے جمعہ کے روز نماز کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کی جانب سے اہانت رسولؐ کے معاملے پر ہنگامہ آرائی کروائی! ابھی تک کسی مسلم تنظیم کا اس معاملے میں کوئی ہاتھ نظر نہیں آرہا ہے۔ پھر بھی جمعہ کے روز جو احتجاجی مظاہرے ہوئے وہ بہت منظم نظر آرہے ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ بغیر کسی تنظیم کے اتنا بڑا احتجاج کیوں کر بپا ہو گیا!
اس سوال کے محض دو جواب ممکن ہیں۔ پہلا تو یہ کہ سنہ 2014 سے لے کر ابھی اہانت رسولؐ کے معاملے تک ہندوتوا تنظیمیں مسلمانوں کو ہر طرح سے ذلیل و خوار کر رہی تھیں۔ کبھی لنچنگ تو کبھی اذان و نماز پر اعتراض، حد یہ کہ اس کی حرمت لوٹنے کا اعلان۔ یہاں تک کہ دھرم سنسد کے نام پر مسلم نسل کشی کا پیغام۔ کبھی لو جہاد تو کبھی معاشی ناکہ بندی۔ الغرض اس مدت میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب کہ مسلمان کو کسی نہ کسی طرح عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ظاہر ہے کہ تمام تر صبر کے باوجود اندر اندر ایک لاوا اور غصہ تو پنپ رہا تھا۔ یہ وہی غصہ اور لاوا تھا جو اہانت رسولؐ کے بعد پچھلے جمعہ سڑکوں پر احتجاج کی شکل میں پھوٹ پڑا۔
لیکن یہ بات بہت زیادہ عقل میں اس لیے نہیں آتی کہ پچھلے جمعہ جو احتجاج ہوئے وہ اگر دو چار جگہوں پر ہوتے تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یکایک غصہ پھوٹ پڑا۔ لیکن یہ احتجاجات کسی ایک شہر یا کسی ایک صوبہ تک محدود نہیں تھے۔ یہ احتجاج تو کئی صوبوں اور درجنوں شہروں تک پھیلے ہوئے تھے۔ یقیناً اس کے لیے کسی تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کسی تنظیم کا اس میں ہاتھ نہیں تھا۔ تو پھر کون تھا جو اس ہنگامہ آرائی کے پس پردہ کارفرما تھا! یہ مت بھولیے کہ ہندوستانی مسلم بستی میں لاتعداد مسلم مخبر ہوتے ہیں جو پولیس کے اشارے پر ناچتے ہیں۔ ان مخبروں کا ایک پورا نٹ ورک ہوتا ہے جس کا استعمال انتظامیہ وقت بے وقت کرتا رہتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ مسلم دشمن عناصر نے اسی مسلم مخبروں کے نٹ ورک کا استعمال کر نوجوانوں کے دل و دماغ میں پک رہے لاوے کو اہانت رسول کے نام پر آگ دکھا دی۔ اور بس وہی غصہ سڑکوں پر پھوٹ پڑا۔
لیکن 10 جولائی بروز جمعہ مسلم بستیوں میں جس طرح کی ہنگامہ آرائی ہوئی، وہ یقیناً ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے۔ وہ مخبروں یا چھوٹی موٹی نام نہاد لوکل مسلم تنظیم جو بھی اس میں شامل تھا، اس کو مسلم دوست نہیں بلکہ مسلم دشمن ہی کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے دوسرے روز سے جس شہر میں بھی ہنگامہ ہوا تھا، وہاں درجنوں مسلم نوجوان گرفتار ہورہے ہیں جو اب نہ جانے کب تک قید و بند کی ہوا کھائیں گے۔ درجنوں افراد کے گھر،دکان بلڈوزر کی نذر ہو جائیں گے اور اس کا سیاسی فائدہ بھی بی جے پی کو ہوگا۔ راقم الحروف مدت سے لکھتا آرہا ہے کہ یہ صبر و تحمل کا وقت ہے، اس وقت ذرا بھی ہوش کا دامن چھوٹا تو بال و پر بھی جل جائیں گے۔ اس لیے پھر ایک بار یہی رائے ہے کہ خدارا جوش نہیں ہوش سے کام لیجیے۔