خدمت سے غلامی تک

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ وفینانس

آئی اے ایس یہ تین حرف ہیں لیکن اپنے آپ میں کافی کشش رکھتے ہیں۔ ان کی کافی اہمیت ہے۔ آئی اے ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹیو سرویس) آزادی کے 75 سال بعد بھی اپنے معیار اور کشش کے باعث اپنا سماجی رتبہ طاقت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ آئی اے ایس آفیسرس اب بھی سماجی رتبہ اور اقتدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر کوئی آئی اے ایس بنتا ہے تو 25 تا 32 برسوں کیلئے اس کی آمدنی یقینی ہوجاتی ہے۔ عمر بھر وظیفہ کا حقدار ہوجاتا ہے۔ بے شمار مراعات ملتی رہتی ہیں۔ طبی نگہداشت کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ہاں یہ بھی صحیح ہے کہ اکثر ملازمت سے متعلق اطمینان نہیں ہوتا۔ آئی اے ایس کے نیچے انڈین پولیس سرویس (آئی پی ایس) ہے۔ ہر سال تقریباً 2 لاکھ نوجوان مرد و خواتین آئی اے ایس اور آئی پی ایس بننے کیلئے تحریری امتحان اور انٹریو کے مرحلہ سے گذرتے ہیں۔ تب کہیں جاکر وہ ان دو خدمات کیلئے منتخب ہونے والے 400 امیدواروں میں شامل ہوسکتے ہیں یا ہوتے ہیں۔ آئی اے ایس اور آئی پی ایس سلیکشن کی ایک اہم بات یہ ہے کہ یہاں بھی درج فہرست طبقات و قبائل کیلئے تحفظات فراہم کئے گئے ہیں۔ بعد میں تحفظات کا دائرہ بڑھاکر دیگر پسماندہ طبقات (او پی سیز) کو بھی اس میں شامل کیا گیا (اس کے باوجود تحفظات 49.5% سے زیادہ نہیں ہوتے) جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان دو باوقار خدمات میں شمولیت کا لاکھوں نوجوان خواب دیکھتے ہیں۔ تمنا رکھتے ہیں، خاص طور پر کمزور طبقات کے نوجوان لڑکے لڑکیاں آئی اے ایس اور آئی پی ایس بننے کوشاں رہتے ہیں اور بن بھی رہے ہیں۔
آپ کو بتادیں کہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس بالترتیب آئی سی ایس اور آئی پی کے ایک طرح سے جانشین کہے جاسکتے ہیں، کیونکہ برطانوی سامراج کے دور حکمرانی میں آئی اے ایس کی جگہ آئی سی ایس اور آئی پی ایس کی جگہ آئی پی ہوا کرتا تھا۔ یہ دونوں خدمات شاندار خدمات تصور کی جاتی تھیں لیکن فی الوقت آئی اے ایس اور آئی پی ایس جیسی خدمات کے بارے میں مقبول عام رائے یا تاثر یہی ہے کہ ان میں بھی بے شمار برائیاں سرائیت کرگئی ہیں۔ ان برائیوں میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس برادری کے بعض ارکان نے ریاستی سرپرستی حاصل کرلی ہے اور سیاسی اتھاریٹی اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ان آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں کی سرپرستی کرتی ہے یعنی اس قدر شاندار خدمات سے متعلق اعلیٰ عہدیدار سیاسی سرپرستی کے خواہاں رہتے ہیں۔ پہلے یہی کہا جاتا تھا کہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیدار بڑے سخت ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے ان کے اطراف آہنی گھیرا یا دائرہ ہوا کرتا تھا جس کے قریب بھی سیاسی جماعتیں یا سیاسی قائدین آنے سے گھبراتے تھے لیکن اب وہ دائرہ اپنے نشانات کھوچکا ہے۔ اب وہ گھیرا نظر نہیں آتا۔ وہ سختی دکھائی نہیں دیتی۔ اب یہ آہنی فریم اپنی مضبوطی اپنی شان و شوکت کھوچکا ہے۔ خوشی سے قواعد کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
اسے چھوڑ کر ہم دیکھیں تو آئی اے ایس، آئی پی ایس کے رولس یا قواعد ہوتے ہیں لیکن سردست ان قواعد و اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک طرح سے ان اعلیٰ خدمات کی تو نہیں کی جارہی ہے۔ آج یہ حال ہوگیا ہے کہ سیول سرویس کے قواعد و اصولوں کو پامال کرنے کے خواہاں عناصر اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے درمیان ٹھن گئی ہے۔ مثلاً Cadre Rules کو ہی لیجئے جو اب مرکزی حکومت اور نئی ریاستی حکومتوں کے درمیان تنازعہ کا باعث بن گئے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ آئی اے ایس (کیڈر) رولس اور آئی پی ایس (کیڈر) رولس یا قواعد 1954 میں بنائے گئے قواعد تو بنادیئے گئے لیکن جب ان پر عمل کا وقت آیا ہر Rule کی خلاف ورزی کی گئی۔
اب آپ کو آئی اے ایس (کیڈر) اور آئی پی ایس (کیڈر) کے قاعدہ نمبر 8 اور 9 کی طرف لئے چلتے ہیں جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ موجودہ کیڈر اور سابقہ کیڈر کے عہدہ کیڈر آفیسر کے ذریعہ بھرتی کئے جانے چاہئے۔ ہاں نان کیڈر آفیسرس کا ان عہدوں پر صرف عارضی تقرر کیا جاسکتا ہے لیکن ان دونوں Rules کی مسلسل خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں اور ایسی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے جیسے وہ منسوخ ہوگئے ہوں۔ سب سے بدترین خلاف ورزی کیڈر پوسٹ کے مماثل یا مساوی کئی سابق کیڈر پوسٹوں کی تخلیق ہے (مثال کے طور پر چیف سیکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس) اور سابق کیڈر عہدہ رکھنے سے غیرضروری عہدیداروں کو روکنا۔قواعد کا جو مضبوط آہنی دائرہ یا گھیرا تھا، اسے توڑ دیا گیا اور جس کے باعث ہی آنے والے دنوں میں ان خدمات سے متعلق حالات بد سے بدتر ہوسکتے ہیں۔
حال ہی میں مرکزی حکومت نے آئی اے ایس (کیڈر) اور آئی پی ایس (کیڈر) سے متعلق قواعد میں مرکزی حکومت نے نئی ترمیمات کی تجویز پیش کی اور مرکزی حکومت کی اس تجویز کی ریاستی حکومتوں نے شدت سے مخالفت کی۔ پہلی ترمیم کا مقصد 40% کے Deputation Reserve کے تحت مرکزی حکومت کو ایک نامناسب تعداد میں ان عہدیداروں کے Deputation کے مسئلہ کو حل کرتا ہے۔ پچھلے سات برسوں میں یہ تناسب 28% سے گر کر 12% ہوگیا۔ یہ مسئلہ حقیقی ہی ہوسکتا ہے لیکن اس کی وجوہات کی جڑیں گہرائی تک پیوست ہیں۔ اب حالات پہلے کی طرح نہیں رہے، جب آئی اے ایس، آئی پی ایس عہدیداروں میں مختلف عہدوں پر تعیناتی اور تقررات کیلئے مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ وہ مرکزی حکومت میں تبادلہ اور تقرر کیلئے ایک دوسرے سے مسابقت کرتے تھے لیکن اب کوئی بھی آئی اے ایس، آئی پی ایس عہدیدار مرکزی حکومت کے تحت خدمات انجام دینے راضی نہیں ہے۔فرض کیجئے کہ پہلی ترمیم ایک ضرورت ہے لیکن دوسری ترمیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پوری طرح بدنیتی پر مبنی ہے کیونکہ اس سے مرکزی حکومت کے اختیارات میں اضافہ ہوگا اور وہ ’’مخصوص حالات‘‘ میں یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے تحت خدمات انجام دینے والے کسی بھی آفیسر کو طلب کرلے گی۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ مخصوص حالات یا صورتحال کیا ہوگی؟ اس ضمن میں ہم آپ کے سامنے چیف سیکریٹری مغربی بنگال کی سبکدوشی کی مثال پیش کرتے ہیں جو طیران گاہ پر وزیراعظم نریندر مودی کا خیرمقدم کرنے کیلئے نہیں پہنچے تھے۔ بعد میں انہوں نے رضاکارانہ سبکدوشی اختیار کرلی تاکہ ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جاسکے۔ اسی طرح ان پولیس عہدیداروں کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے جو صدر بی جے پی جے پی نڈا کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کیا کیا گیا ۔
متبادل حل
اس بارے میں جو بھی غلط تاثرات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر مودی حکومت کے تعلق سے غلط تاثرات کافی پیدا ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومتیں مرکز پر مطلق العنانی من مانی کے الزامات عائد کررہی ہیں۔ ایسے میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایک مشورہ یہ ہے کہ آئی اے ایس، آئی پی ایس کی تعداد ہر سال بڑھائی جائے تاکہ ریاستی حکومتوں اور مرکز کے درمیان ان عہدیداروں کے تبادلوں یا تقررات پر اختلافات پیدا نہ ہوں۔ ایک اور مشورہ یہ ہے کہ بھرتیوں کے ابتداء میں ہی مرکزی حکومت کے تحت خدمات انجام دینے کے خواہاں عہدیداروں کی نشاندہی کرکے ان کی تعیناتی مرکزی حکومت کے محکمہ جات میں کی جائے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مودی حکومت میں تعاون و اشتراک پر مبنی وفاقیت بہت پہلے ہی دفن ہوکر رہ گئی۔ اب ہم تصادمی وفاقیت کے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔