خلیج فارس میں جنگ کا خطر ہ

   

خلیج فارس میں ایران اور امریکہ کے مابین کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور خطہ میں جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ جس وقت سے امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی عہدہ سنبھالا ہے وہ ایران کو سنبھلنے کا موقع دینا نہیں چاہتے ۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ایران اور مغربی طاقتوں کے مابین طئے پائے نیوکلئیر معاہدہ سے امریکہ کی دستبرداری کا اعلان کردیا ۔ اس کے بعد سے مسلسل ایران پر نیوکلئیر سرگرمیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے معاشی تحدیدات کو مسلسل سخت کرتے جا رہے ہیں۔ ایران ان تحدیدات کے باوجود بھی اپنے حالات کو ممکنہ حد تک سنبھالنے اور سدھارنے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن وہ ساتھ ہی وقفہ وقفہ سے امریکہ کی دھمکیوں کا اس کی زبان ہی میں جواب بھی دینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ایسے میں ڈونالڈ ٹرمپ کو ایران کا وجود بھی کھٹکنے لگا ہے ۔ انہوں نے حالیہ عرصہ میں تحدیدات میں مزید سختی کا اعلان کردیا تھا جس سے دوسرے ممالک کی تیل کی در آمدات بھی متاثر ہونے لگی ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ اپنے فیصلے پر اٹل ہیں۔ ایران کا بارہا الزام رہا ہے کہ امریکہ اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کرتا جا رہا ہے اور اس سے اسے باز رہنے کی ضرورت ہے تاہم امریکہ اپنی طاقت کے نشہ میں چور مسلسل خلاف ورزیاں کرتا رہا ہے ۔ جمعہ کو ایران نے امریکہ کے ایک ڈرون کو مارگرایا ہے جس کی خود امریکہ اور پنٹگان کی جانب سے بھی توثیق کی گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے خلیج فارس میں ایک اور جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ اپنے تکبر اور طاقت کے نشہ میں امریکہ نے خطہ میں عراق پر جنگ مسلط کرتے ہوئے وہاں ایک اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ خطہ میں اسرائیلی تسلط کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ایران کے خلاف بھی جنگ کی جائے ۔ اس کے پس پردہ عزائم حالات سے یہی دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح سے امریکہ ‘ خطہ میں کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنتاجارہا ہے اس سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ امریکہ کسی نہ کسی بہانے سے اپنے لئے موزوں وقت پر یہاں جنگ کا آغاز کرسکتا ہے ۔
اطلاعات کے مطابق کل ہی ایران کی جانب سے ڈرون کو مار گرائے جانے کے بعد امریکہ میں ایک طرح سے جنگی ہذیان کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے امکانات پر نہ صرف غور کیا گیا بلکہ پنٹگان کی جانب سے جوابی کارروائی کی سفارش بھی انتظامیہ کے اعلی عہدیداروں کو روانہ کردی گئی تھی ۔ کچھ گوشوں میں جنگی اور فوجی کارروائیوں کی تیاریوں کا بھی بڑی تیزی کے ساتھ آغاز کردیا گیا تھا ۔ تاہم اچانک ہی ان تیاریوں کو روک دیا گیا اور فی الحال صرف ایران کے خلاف دباو بنانے پر ہی اکتفاء کیا جا رہا ہے تاہم یہ اندیشے ہنوز لاحق ہیں اور ان سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ خطہ میں امریکہ کی جانب سے ایک اور جنگ کسی بھی وقت مسلط کی جاسکتی ہے ۔ امریکہ حالانکہ ایران کی نیوکلئیر اور جوہری سرگرمیوں کو اس کی وجہ بتا رہا ہے تاہم اس کے پس پردہ امریکہ کے خفیہ مقاصد و عزائم سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ خطہ میں امریکہ کے جو حلیف اور حواری ممالک ہیں ان کو صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اس حقیقت سے انکار نہیں ہونا چاہئے کہ خطہ میں اگر جنگ ہوتی ہے تو اس کے اثرات ان ممالک پر بھی ہوسکتے ہیں اور یہ جنگ کسی بھی وقت طول اختیار کرتے ہوئے سارے خطہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔
خلیج میں پہلے شام کے حالات انتہائی افسوسناک حد تک بگاڑ دئے گئے ہیں۔ یمن میں جنگ چل رہی ہے ۔ فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے نئی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور انہیں ڈونالڈ ٹرمپ کی مدد بھی حاصل ہے ایسے میں اگر ایران کے خلاف فوجی کارروائیوں کا امریکہ کی جانب سے آغاز ہوتا ہے تو اس سے خطہ کے دوسرے ممالک پر اثر ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ خطہ کے تمام ممالک کو اس سلسلہ میں حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ پر فوجی کارروائیوں کے امکان کو ختم کرنے کیلئے اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہمیشہ امریکہ کی کٹھ پتلی کا رول ادا کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارہ کو بھی اس معاملہ میں امریکہ پر لگام کسنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ نہ صرف خلیج فارس بلکہ دنیا کو ایک اور جنگ سے محفوظ رکھا جاسکے ۔