خواتین سے بی جے پی قائدین کی نفرت

   

برندا کرت
حال ہی میں این ڈی ٹی وی (NDTV) پر ایک پیانل مباحث ہوا جس کی اینکر ندھی رازدان تھیں۔ یہ مباحثہ دراصل اُترپردیش کی لکھیم پور کھیری میں دو کم عمر دلت بہنوں کی عصمت ریزی اور قتل کی بہیمانہ واردات پر کیا گیا جس میں بی جے پی کی نمائندگی اشوک واٹس نے کی۔ انہوں نے بلند لہجے میں واضح طور پر دونوں متوفی لڑکیوں کے بارے میں کہا کہ ان لوگوں نے فرار ہونے اپنے عاشقوں سے ملنے اور خود جاکر عصمت ریزی کا شکار بننے کے منصوبے بنائے۔ اس کے بعد میں نے اس ویڈیو کلپ کو کئی بار چیک کیا۔ اس لئے کہ میں کبھی ایسا یقین نہیں کرسکتی کہ کوئی بھی اس قدر گندی و گھٹیا سوچ رکھتا ہوگا۔ ایک مباحثہ میں اس طرح کے خیالات اور وہ بھی کمسن لڑکیوں کے بارے میں ایسی فکر کون رکھتا ہے؟ واضح رہے کہ عصمت ریزی کا شکار ہوکر قتل ہونے والی لڑکیوں کی عمریں 15 اور 17 سال تھیں۔ بہرحال میں نے بار بار بی جے پی لیڈر کے بیان کے ویڈیو کلپ کو چیک کیا اور اس بات پر مطمئن ہوئی کہ میں نے جو کچھ سنا وہ غلط نہیں تھا۔ اس نے حقیقت میں وہ ناخوشگوار بیان دیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اترپردیش کے ہی ہاتھرس میں جب ایک نوجوان دلت لڑکی کو اجتماعی عصمت ریزی کا نشانہ بنانے کے بعد انتہائی بیدردی سے اس کے جسم کی ہڈیاں توڑی گئی تھیں جس کے نتیجہ میں وہ اپنی زندگی سے محروم ہوئی اور جب یوپی پولیس نے اس وقت تک عصمت ریزی کا کیس درج کرنے سے انکار کردیا تھا جب تک ہائیکورٹ نے مداخلت نہیں کی۔ ہائیکورٹ کی مداخلت کے نتیجہ میں یوپی پولیس عصمت ریزی کا مقدمہ درج کرنے پر مجبور ہوئی۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اُس وقت بھی بی جے پی کے ایک لیڈر راجیو سریواستو نے اس مظلوم متوفی لڑکی کو ’’آوارہ‘‘ قرار دیا تھا۔ راجیو سریواستو نے صرف متوفی لڑکی کو آوارہ قرار دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ملزمین کو جن کا تعلق چیف منسٹر کی ذات برادری سے تھا، بے قصور قرار دیا۔ یہ اچھا ہوا کہ قومی کمیشن برائے خواتین نے اس طرح کے واہیات بیان پر بی جے پی لیڈر کو نوٹس جاری کی، لیکن افسوس کے اس بی جے پی لیڈر کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حالیہ عرصہ کے دوران کرناٹک میں ایک بی جے پی ایم ایل اے رینوکا چاریہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ بعض ایسے لباس جو خواتین زیب تن کرتی ہیں، اس سے مردوں کے جذبات برانگیختہ ہوجاتے ہیں۔واضح رہے کہ جن کمسن دلت لڑکیوں کی عصمت ریزی کی گئی اور قتل کیا گیا، وہ ایک بے زمین کسان خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ خاتون تنظیموں کی حقائق جاننے والی ایک مشترکہ کمیٹی نے جس کا تعلق آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنس اسوسی ایشن (AIDWA) سے ہے، متاثرہ خاندان سے ملاقات کی، لڑکیوں کی غم زدہ ماں سے بات کی جس پر ماں نے بتایا کہ ان کی دونوں بیٹیوں کا اغوا کیا گیا جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ لڑکیاں اپنی مرضی سے گئی تھیں۔ پولیس نے لڑکیوں کے خلاف بیان دیا لیکن متاثرہ لڑکیوں کا خاندان اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ ان کا اغوا کیا گیا۔ اگر پولیس کا بیان تسلیم بھی کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ دونوں دو افراد کے ساتھ موٹر یا بائیک پر کہیں بھی چلی گئیں، اس کے بعد ان کے ساتھ جو جنسی وحشیانہ پن کیا گیا، کیا وہ بھی ان کی اپنی مرضی سے کیا گیا۔ سب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جہاں تک کمسن لڑکیوں کا سوال ہے، قانون کے مطابق اس میں لڑکیوں کی مرضی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لڑکیوں کے غم زدہ ارکان خاندان نے بتایا کہ پولیس ان سے تعاون نہیں کررہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ اس طرح کا بہیمانہ خوفناک واقعہ پیش آیا اسے ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کیلئے کافی جدوجہد کرنی پڑی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ NRCB کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ خواتین کے خلاف مظالم میں خاص طور پر اترپردیش سرفہرست ہے جہاں خواتین کے خلاف جرائم کے 56,093 مقدمات درج کئے گئے۔ برجیش پاٹھک کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ آنے والی نسلوں کی روحیں نہیں جنہیں کانپنے کی ضرورت ہے بلکہ ان کی اپنی پارٹی کی حکمرانی میں ایسے مجرمین کو خاطی قرار دینے کی جو شرح ہے، وہ بہت کم ہے۔ بحیثیت ڈپٹی چیف منسٹر انہیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ ہندوستان میں دستور کی حکمرانی ہے جو مجرمین، زانیوں، اجتماعی عصمت ریزی کرنے والوں، بچوں، عورتوں اور مردوں کے قاتلوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر سزائیں دیتا بلکہ ان کے جرم کی بنیاد پر سزائیں دیتا ہے، چاہے ان کے جنید، سہیل، حفظ ال کریم الدین اور عارف ہی کیوں نہ ہوں یا پھر ہاتھرس ریپ و قتل کیس کے ملزمین سندیپ، رامو، لوکیش، روی یا پھر بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی اور ان کے 7 ارکان خاندان کے قتل میں ملوث معافی دیئے جانے والے ملزمین (جسونت بھائی نائی، گوئند بھائی نائی، سلیش بھٹ، رادھے شیام شاہ، بپن چندرا جوشی، کسر بھائی ووہانپہ، پردیپ، بکا بھائی وہاٹیہ، راجو بھائی سونی، نتیش بھٹ، رمیش چندنا) ہی کیوں نہ ہوں۔ قانون کی نظر میں سب مساوی ہیں۔ حکومت کو جان لینا چاہئے کہ مجرمین کے ساتھ اگر آپ ان کے مذہب کی بنیاد پر مختلف سلوک روا رکھیں گے تو پھر خواتین کے ساتھ بدترین ناانصافی ہوگی اور ان کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔ حکومت کے آٹھ سال یہ جاننے اور سمجھنے کیلئے کافی ہیں کہ بحیثیت قوم ہم کس سمت میں جارہے ہیں؟ 2014ء میں جب سے مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا، ہم نے ایسی آئیڈیالوجی کے فروغ کو دیکھا ہے، جس کے ڈی این اے میں خواتین سے نفرت، ان کی توہین کا جذبہ، ذات پات کی لعنت اور فرقہ پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس کا اندازہ حکمراں جماعت کے قائدین اور اس کے حامیوں کی جانب سے وقفہ وقفہ سے جاری کئے جانے والے بیانات سے بخوبی ہوسکتا ہے اور جب یہ بیانات پالیسیوں اور عمل آوری کی شکل اختیار کرتے ہیں تو بھی ناانصافی کا باعث بنتے ہیں۔ جیسا کہ ہاتھرس کیس میں ہوا جہاں ایک 19 سالہ متاثرہ دلت لڑکی کے خاندان کے خلاف اعلیٰ ذات والے متحرک ہوگئے، اس پر متعدد الزامات عائد کئے یا پھر بلقیس بانو کیس میں ہوا اور بدترین جرائم کے مرتکبین کی سزا گھٹاکر انہیں جیل سے رہا کردیا گیا۔