دارالحرب (غیراسلامی ملک)  کا مفہوم و مصداق

   

دارالحرب ایک فنی اصطلاح ہے، اس کو فقہاء کرام نے وضع نہیں کیا بلکہ شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کو دارالاسلام کے مقابل میں استعمال کیا جیسا کہ ہدایہ ، قدوری کے باب ا لربوا میں منقول حدیث ’’لاربوا بین المسلم والحربی فی دارالحرب‘‘ سے مستفاد ہے۔
لفظی اعتبار سے دارالحرب پر جب غور کیا جاتا ہے تو اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے اور بظاہر ہر دارالحرب سے ایسا ملک سمجھا جاتا ہے جس سے حرب یعنی جنگ کرنا درست ہے لیکن یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب کوئی فنی اصطلاح وضع کی جاتی ہے اور کسی لفظ کو مخصوص اصطلاح کیلئے مقرر کیا جاتا ہے تو اس میں لفظی مناسبت کے ساتھ جس اصطلاح کے بالمقابل یہ اصطلاح وضع کی جارہی ہے اس مد مقابل اصطلاح کے معنی و مفہوم کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے جس طرح ’’مادہ‘‘ کو سمجھنے کیلئے ’’نر‘‘ کا تصور ممد و معاون ہوتا ہے، حیوان (بالارادہ حرکت کرنے والا ، حس رکھنے والا) کو سمجھنے کیلئے ’’ جامد‘‘ کا مفہوم آسانی پیدا کرتا ہے۔ ’’ نور‘‘ کو سمجھنے کیلئے اس کی ضد ’’ظلمت‘‘ کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ’’تعرف الاشیاء باضدادھا اشیاء اپنی ضد سے جانی جاتی ہیں‘‘۔ کسی بھی شئی کا ادراک اس کے ضد سے کما حقہ کیا جاسکتا ہے ۔ دارالحرب کے مفہوم کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے اس کے بالمقابل اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے اور دارالحرب کی اصطلاح دارالاسلام کے مقابل میں وضع کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے دنیا میں کسی بھی ملک پر بنیادی طور پر دو ہی لحاظ سے اطلاق ہوگا یا تو وہ اسلامی ملک کہلائے گا یا وہ غیر اسلامی ملک ہوگا۔
اسلامی ملک کو دارالاسلام اور غیر اسلامی ملک کو دارالحرب کہتے ہیں۔ اب غیر اسلامی ملک کو کئی خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اگر وہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو، ان کے جان و مال کا تحفظ ہو تو اس غیراسلامی ملک کو ’’ دارالامن‘‘ یا ’’دارالامان‘‘ کہا جاسکتا ہے اور اگر جان و مال کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے ساتھ دعوت و تبلیغ پر کوئی پابندی نہ ہو تو اس کو دارالدعوۃ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مختلف اعتبارات سے غیراسلامی ملک کو مختلف نام دیئے جاسکتے ہیں لیکن نام بدلنے سے اس کی بنیادی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی۔ ہندوستان کو دارالامن کہیں یا دارالدعوۃ سے موسوم کریں۔ کسی بھی صورت میں وہ غیر اسلامی ملک (دارالحرب) سے خارج نہیں ہوگا کیونکہ اس میں اگرچہ مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو، عیدین و جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہو ، مساجد تعمیر کرنے اور آباد کرنے کا حق حاصل ہو۔ حتی کہ غیر مسلمین کو اسلام کی طرف دعوت دینے کا مکمل اختیار ہو اس کے باوجود اس پر اسلامی ملک یعنی دارالاسلام کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی باشعور شخص اس کو قبول کرے گا۔
حضور پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے عہد مبارک میں تین قسم کے ملک تھے۔۱۔ مکہ مکرمہ جہاں ابتداء میں عبادات بجا لانا تو کجا اسلام کا اظہار کرنا تکلیف دہ تھا۔ دارالکفر تھا۔ اس کے مقابل میں ملک حبشہ میں اسلام پر عمل کرنا منع نہیں تھا ۔ مسلمانوں کو وہاں جان و مال کا تحفظ اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی تھی، یہ مسلمانوں کیلئے دارالامن تھا لیکن یہ دونوں ملک غیر اسلامی تھے کیونکہ وہاں بحیثیت مجموعی اقتدار و غلبہ مسلمانوں کو حاصل نہیں تھا، اسلامی قوانین اور حدود نافذ نہیں کئے جاتے تھے۔ ان دونوں کے مقابل میں مدینہ منورہ تیسرا ملک تھا جہاں ابتداء مخلوط حکومت قائم ہوئی جس میں اہل کتاب، مشرک اور مسلمان شریک تھے اور ان سب کے سربراہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ بعد ازاں یہ ملک دارالاسلام میں تبدیل ہوگیا اور اس کے مقابل میں جو بھی ملک تھے اگرچہ اس میں امن ہو یا نہ ہو اس پر دارالحرب کا اطلاق کیا گیا۔
فقہ اسلامی میں دارالاسلام اور دارالحرب کے مابین بعض احکامات میں اختلاف ہے۔ یعنی جو چیز دارالاسلام میں درست نہیں، وہی چیز دارالحرب میں جائز ہوجاتی ہے ۔ مثال کے طور پر دارالاسلام میں بیوع فاسدہ جائز نہیں اور فقہ حنفی میں دارالحرب میں بیوع فاسدہ جائز ہیں۔ یہ جو اختلاف اور لچک ہے مسلمانوں کے حق میں اور ان کے مفاد میں ہے اور دارالاسلام اور دارالحرب میں اختلاف احکام امت اسلامیہ کے حق میں رحمت ہے ورنہ یہ کہنا کہ حکم شرعی ایک ہی ہوتا ہے۔ خواہ دارالاسلام ہو یا دارالحرب بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا نہایت دشوار ہے۔
پس ہندوستان غیر اسلامی مملکت ہے وہ دارالحرب ہے۔ اگرچہ اس میں مسلمانوں کیلئے امن و تحفظ اور آزادی ہے، اس لحاظ سے اس کو دارالامن یا دارالدعوۃ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال نام کچھ بھی دیدیں وہ غیر اسلامی ملک ہی کہلاتے ہیں۔ اس میں بیوع فاسدہ درست ہیں یعنی گاڑی اور صحت کا انشورنس کرنا اگرچہ فاسد ہے لیکن یہ غیر اسلامی ملک جیسے ہندوستان میں جائز ہے اور امریکہ جیسے ملک میں تو یہ لازم ہے ۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ اس لئے اس گنجائش کے پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو آج کروڑوں مسلمان حرام کے مرتکب قرار پائیں گے ۔